گنیز بک میں درج سب سے شیریں آم کہاں کا ہے؟
مولانا خانزیب
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جسے مختلف ممالک اور خطے میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، گرمی کے موسم میں مختلف النوع ذائقوں اور رنگت و جسم کے حوالے سے سب سے منفرد پھل ہے۔ آم کے موسم میں یہ پھل تمام پھلوں پر بھاری ہوتا ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ذائقہ سے بھرپور اور انتہائی میٹھا ہوتا ہے جس میں وٹامن اور معدنیات کثرت سے پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
روزانہ ایک آم کھانے سے آپ پیٹ سمیت مختلف بیماریوں سے محفوظ اور صحت مند رہتے ہیں جبکہ آم دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
آم ہندوستان پاکستان فلپائن اور بنگلہ دیش کا قومی پھل ہے۔ ہندوستانی اسے زندگی کی علامت بھی سمجھتے ہیں اور اسے مذہبی رسومات میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
آم کا نام ‘مینگو’ انڈیا سے آیا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں چار کروڑ 60 لاکھ ٹن سے زائد آم پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس پھل کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پھل دنیا کے بہت سے حصوں میں پیدا ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ آم بھارت میں پیدا ہوتا ہے، بازاروں میں آم سب سے پہلے پیرو، اس کے بعد افریقہ سے اور تیسرے نمبر پر اسرائیل اور مصر سے اور پھر برازیل سے آنا شروع ہوتے ہیں۔
جنوبی ایشائی ممالک میں تقریبا پونے دو کروڑ ٹن آم پیدا ہوتے ہیں جو دنیا کی سالانہ پیداوار کا 40 فیصد ہے لیکن دنیا بھر میں برآمد کیے جانے کے معاملے میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آم کو اپنے ہی ملک میں استعمال کر لیا جاتا ہے۔
آم دراصل سنسکرت کے لفظ اَمر سے ماخوذ ہے۔ سنسکرت ادب میں یہ آمر کے نام سے مذکور ہے اور 4000 سال معلوم تاریخ سے دنیا میں موجود ہے۔ انگریزی میں مینگو بھارتی تامل کے لفظ منگائی سے آیا ہے۔ اصل میں پرتگالیوں نے تامل سے لے کر اس کو منگا کہنا شروع کیا تھا جہاں سے انگریزوں میں پہنچ کر یہ لفظ مینگو بن گیا۔
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں برِصغیر سے آم نے بدھ بھکشوؤں کے ہمراہ جنوب مشرقی ایشیا ہجرت کی اور برما، تھائی لینڈ، چین سے ہوتا ہوا انڈونیشیا اور فلپائن تک پہنچ گیا۔ (فلپائن کا آم کاراباؤ اس قدر شیریں ہے کہ گنیز بک میں جگہ پا چکا ہے)۔
پندھرویں اور سولہویں صدی کے بیچ فلپائن سے ہسپانوی جہاز آم کی گٹھلی میکسیکو لے گئے۔ یوں بحرالکاہل کے آر پار منیلا سے فلوریڈا اور ویسٹ انڈیز تک ہر ہسپانوی نوآبادی میں آم عام ہو گیا اور پھر بحراقیانوس عبور کرتا اسپین (غرناطہ و جزائرکینری) اور پرتگال تک جا پہنچا۔
ہندوستان میں لوگ چار ہزار سال سے آم کھا رہے ہیں جبکہ مغربی دنیا صرف چار سو سال پہلے اس کے ذائقے سے آشنا ہوئی۔ مالابار کے ساحل سے پرتگیزی اور عرب جہازوں میں آم کا پودا مشرقی افریقہ تک جا پہنچا۔
ابنِ بطوطہ نے مانگا (آم کا پرتگیزی نام) صومالیہ کے شہر موگا دیشو میں مزے لے لے کے کھایا اور آم کا تذکرہ بھی کیا۔ آم دنیا کے چند پسندیدہ پھلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا آبائی وطن جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء ہے لیکن یہ دنیا کے تمام استوائی علاقوں میں ہوتا ہے، اس کا گودا کھایا جاتا ہے۔
برصغیر میں اس پھل کی خوب پیداوار ہے، اسی لیے اسے بھارت اور پاکستان کا قومی پھل مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں مئی جون کا مہینہ موسم گرما کے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں۔ اگر اس شدید گرم تپتے موسم میں کوئی احساس تازگی و خوشگواری پیدا کرتا ہے تو وہ پھلوں کے بادشاہ آم کی آمد ہے جس کے زرد رنگ اور ذائقے کے سامنے دیگر تمام پھلوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔
آموں کا ذکر تو نے جو چھیڑا ہے ہم نشیں
اک آم ایسا سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔
مرزا غالب آموں کے بڑے شوقین ہوا کرتے تھے۔ اس پھل کے بارے میں ان کا مشہور قول ہے کہ آم میٹھے اور ڈھیر سارے ہونے چاہیئں۔
غالب کی آموں میں دل چسپی اور پسند کا جہاں ہمیں ان کے مشہور فقرے ’’میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں‘‘ سے معلوم ہوتا ہے وہیں اس کا اظہار غالب کی ایک مثنوی جو کہ دراصل ان کا آم ایسے لذیذ و خوش ذائقہ اور اپنے من پسند پھل کو ایک منظوم خراج تحسین ہے، سے بھی ہوتا ہے۔ غالب مذکورہ مثنوی میں ایک جگہ تلمیحاً آم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ قدیم ایران میں خسرو پرویز نامی ایک بادشاہ گزرا ہے جس کے پاس موم کی طرح نرم و ملائم سونا ہوا کرتا تھا جس سے وہ مشغلے کے طور پر مختلف اشکال بنا کر اپنا دل بہلایا کرتا تھا۔ غالب فرماتے ہیں کہ اگر اس کی رسائی آم تک ہوتی اور وہ اس کی قدر و قیمت جانتا تو وہ اپنے موم ایسے سونے کو دُور پھینک دیتا جو کہ صرف رنگت میں آم کی طرح تھا مگر قدر و قیمت میں اس کا پاسنگ بھی نہ تھا۔
الطاف حسین حالی نے جو غالب کے بڑے مداح اور خود بھی ایک اعلی پائے کے شاعر تھے ایک مرتبہ غالب کے ایک دیرینہ دوست نواب مصطفی خان شیفتہ سے کہا کہ غالب ہندوستان کے واحد شاعر تھے جنہوں نے آم کی سب سے زیادہ اقسام کا ذائقہ چکھا ہوا تھا۔ بقول حالی غالب ہندوستان میں پیدا ہونے والی آم کی چار ہزار سے زائد اقسام کے ذائقوں سے لطف اندوز ہو چکے تھے۔
یہ بات غالبیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ غالب چلچلاتی گرمیوں میں آم کے سوا کسی بھی اور چیز بشمول شعر گوئی میں دل چسپی لینا پسند نہیں فرماتے تھے، وہ اکثر کہا کرتے کہ میں آم کے سیزن میں آم کاشت کرتا ہوں، کسی نے پوچھا مرزا صاحب کیسے؟ کہنے لگے کہ جب آم زیادہ آتے ہیں اور کھانے سے قاصر ہوتا ہوں تو اسے دوستوں کو ہدیتاً بھیج دیتا ہوں پھر وہ ایک کے بدلے چند دن بعد بہت زیادہ بھیجتے ہیں اور پھر اسے مزے سے کھاتا ہوں۔
اپنے دوستوں کے نام لکھے جانے والے مکاتیب میں غالب آم کی جن اقسام کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں ان میں مالڈا، فالسی، رحمت خاص، سرولی، رام کیلا، بمبئی سبز راٹول، سفیدہ ملیح آبادی، حسن آرائ، نازک پسند، کشن بھوگ، نیلم، خداداد، طوطا ہری، نشاطی، زعفرانی، سیندوری، کھٹا میٹھا بارہ سیب اور بادامی۔
حالی اپنی مشہور تصنیف ’’یادگار غالب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ غالب آموں کی تاریخ پر کامل علم رکھتے تھے۔ غالب نے ایک مرتبہ اپنے ایک دوست مولوی صدر الدین آزردہ کو اپنے ایک مکتوب میں آموں کی تاریخ سے متعلق آگہی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آم کی کاشت چار ہزار سال سے جاری ہے۔
ایک خط میں ایک دوست کو آم کے حوالے سے لکھتے ہیں آم مجھ کو بہت مرغوب ہیں۔ انگور سے کم عزیز نہیں۔ مالدے کا آم یہاں پیوندی اور ولایتی کر کے مشہور ہے، اچھا ہوتا ہے۔ یہاں دیسی آم انواع و اقسام کے بہت پاکیزہ، لذیذ، خوشبو افراط سے ہیں۔ پیوندی آم بھی بہت ہیں۔ رام پور سے نواب صاحب اپنے باغ کے آموں سے اکثر بسبیلِ ارمغان بھیجتے رہتے ہیں۔
مرزا غالب کے دوست حکیم رضی الدین کو آم نہیں بھاتے تھے۔ ایک دن مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے۔ گلی سے ایک آدمی گدھا لے کے گزرا۔ گدھے نے گلی میں پڑے آم کے چھلکے سونگھ کے چھوڑ دیے۔ حکیم صاحب یہ دیکھ کے بولے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا ۔ مرزا نے کہا بے شک گدھا آم نہیں کھاتا۔
مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ایک مجلس میں آموں پر گفتگو ہو رہی تھی، مولانا فضلِ حق خیر آبادی نے آم کے بارے میں غالب سے رائے مانگی۔ مرزا بولے میرے نزدیک تو آم میں دو باتیں ہونی چاہئیں، میٹھا ہو اور بہت ہو۔
غالب کی طرح اکبرالٰہ آبادی کو بھی آموں سے عشق تھا اور آموں میں بھی لکھنو کے سفیدے اور ملیح آباد کے دسہری سب سے زیادہ مرغوب تھے، اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین ایڈیٹر (گلدستہ) پیام یار لکھنو کو لکھتے ہیں۔
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انھیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہو گی! پہلے مگر دام بھیجئے
ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں آموں کی 4000 سے زیادہ قسمیں ہیں جن میں 1000 قسمیں ہندوستان میں تیار ہوتی ہیں۔
سنسکرت ادب میں یہ آمر کے نام سے مذکور ہے اور 4000 سال قدیم زم میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کی پسندیدہ جگہ آم کا باغ تھا۔ بدھ مت کے فنی نمونوں میں اس کی موجودگی قابل ذکر ہے۔
صوفی شاعر امیر خسرو نے فارسی شاعری میں آم کی خوب تعریف کی تھی اور اسے فخر گلشن کہا تھا۔ سنہ 632 سے 645 عیسوی کے دوران ہندوستان آنے والے سیاح ہوانسانگ پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے ہندوستان کے باہر کے لوگوں سے آم کا تعارف کرایا تھا۔
یہی نہیں، آم تمام مغل بادشاہوں کا پسندیدہ پھل تھا۔ اس فصل کو فروغ دینے میں ان کی کوششیں شامل تھیں اور بھارت کی زیادہ تر تیار قلمی قسموں کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔
اکبر اعظم (1556-1605 ء) نے بہار کے دربھنگہ میں ایک لاکھ آم کے درختوں کا باغ لگوایا تھا۔ آئین اکبری (1509) میں بھی آم کی قسموں اور ان کی خصوصیات کی تفاصیل موجود ہیں۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں بھی لال قلعے میں آم کا باغ تھا، جس کا نام حیات بخش تھا اور اس میں بعض مخصوص آم کے درخت تھے۔
سنسکرت ادب میں آم کا ذکر الوکک یعنی غیر مرئی محبت کی علامت کے طور پر ہے۔
بھارت میں تیار بعض مقبول قسمیں اس طرح ہیں: ہاپس (جسے الفانسو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)، مالدہ، راجہ پري، پیری، سفیدا، فضلی، دشہري، توتاپري اور لنگڑا۔ دہلی میں جولائی کے مہینے میں بین الاقوامی آم فیسٹول کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں 500 سے زیادہ قسموں کی نمائش ہوتی ہے۔
پاکستان میں آموں کی پیٹیوں کا ذکر بہاولپور میں پیش آنے والے ایک فضائی حادثے سے بھی منسوب ہے۔ اس قومی پھل نے آج سے 33 سال قبل 17 اگست 1988ء کو ایسا کارنامہ سر انجام دیا کہ اس دن پھلوں کے اس بادشاہ قومی پھل نے اس وقت کے آمر سے قومی نجات دہندہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔