”دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم صحت کی سہولیات کو ترس رہے ہیں”
شاہ زیب آفریدی
سب ڈویژن کوہاٹ میں واقع قوم تور چھپر کی 22 سو آبادی کے لئے صرف ایک سرکاری بی ایچ یو ہے لیکن وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، عملہ کی بہت کمی ہے اور جو عملہ ہے وہ بھی مقامی لوگ ہیں۔
قوم تورچھپر درہ آدم خیل بازار سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے درمیان واقع ایک پسماندہ علاقہ ہے، تورچھپر میں لوگوں کی آبادی اس لئے کم ہے کیونکہ علاقے میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس وجہ سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں اور شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران حاجی افضل، جن کا تعلق تورچھپر علاقہ عتلق سے ہے، نے بتایا کہ ان کے علاقے کے لوگوں کو صحت کے معاملے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم ابھی تک صحت کی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بی ایچ یو تو موجود ہے لیکن بی ایچ یو میں کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو علاج کی سہولیات نہیں مل پاتیں، بچوں کو وقت پے ٹیکے تو لگائے جاتے ہیں مگر خواتین اور مرد اپنے علاج کیلئے دوسری جگہ جاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایچ یو میں دوائی نہ ہونے کے برابر ہے بس صرف ایک خالی مکان ہے نہ ہی کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے جس کی وجہ سے خواتین کی کم تعداد ہی بی ایچ جاتی ہے وہ اپنے علاج کیلئے پشاور اور کوہاٹ جانے پر مجبور ہیں، کرایہ بھی لگتا ہے، وقت کا بھی ضیاع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وقت پر علاج بھی نہیں ہو پاتا، ہمارے علاقے سے روزانہ کی بنیاد پر 25 سے لے کر 45 تک مریض پشاور اور کوہاٹ جاتے ہیں۔
حاجی افضل نے بتایا کہ ہمارے علاقے کی بی ایچ یو میں نہ تو ایل ایچ وی ہے نہ تو ایف ایم ٹی ہیں اور نہ ہی ای پی ائی ٹیکنیشن موجود ہیں، ”اس بی ایچ یو کو بنے ہوئے 25 سال ہو گئے ہیں لیکن اس وقت سے لے کر اب تک نہ تو ہم نے ہسپتال میں ادھر دیکھی ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے تورچھپر کے علاقے کے عوام کا علاج کیا ہو، اس بی ایچ یو میں لوکل ڈاکٹرز کام کرتے ہیں۔
مقامی باشندے آیاز آفریدی کے مطابق جو چوکیدار ہے وہ صرف ہسپتال کا خیال رکھتا ہے، بی ایچ یو میں نہ تو صاف پانی ہے اور نہ ہی صفائی کا کوئی خیال رکھا جاتا ہے۔
مقامی افراد نے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے میں موجود واحد بی ایچ یو کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کو علاج کے لیے پشاور اور کوہاٹ جیسی دوسری جگہوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔