موسی درہ کے بچے ٹینٹوں میں، بچیاں خوابوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں
سٹیزن جرنلسٹ شمائلہ آفریدی
موسی درہ پشاور سے 70 کلومیٹر کی دوری پر پہاڑوں کے بیچوں بیچ واقع سب ڈویژن حسن خیل کا ایک پسماندہ علاقہ ہے جس کی آبادی ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ موسی درہ ایک تاریخی حثیثیت رکھتا ہے، اس علاقے کو امن محبت کا مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں بھی علاقہ میں بنیادی سہولیات سے کا فقدان حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق شروع سے ہی موسی درہ مسائل سے گھرا ہوا ہے جس میں سہرفرست خستہ حال سڑکیں، طبی سہولیات اور تعلیم کا فقدان شامل ہے تاہم دہشت گردی کی لہر نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جس کے بعد علاقے میں امن تو قائم ہو گیا لیکن اتنے عرصے بعد بھی یہاں نہ تو انفرا سٹرکچر بنا نہ معیاری سکول اور نہ صحت کے مراکز بحال ہو سکے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں موسی درہ سے تعلق رکھنے والے مشہور معروف ادیب، لکھاری اور سوشل ایکٹوسٹ اقرار آفریدی نے بتایا کہ کوئی بھی معاشرہ یا قوم اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کیا جائے، علم سے محرومی غربت اور پسماندگی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور قبائلی علاقوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب قوم سے تعلق رکھتے ہوں، مردوں اور عورتوں کے اپنے اپنے حقوق ہوتے ہیں، ”بدقسمتی سے موسی درہ سابقہ ایف آر پشاور کا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے، دور جدید میں بھی پانی، ٹرانسپورٹ، صحت، روزگار اور تعلیمی سہولیات سے محروم ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے خاص طور پر تعلیم کے میدان میں یہ علاقہ سب سے زیادہ بدحالی کا شکار نظر اتا ہے جہاں ڈھائی ہزار آبادی میں ایسی کوئی لڑکی موجود نہیں ہے جس نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی ہو۔”
ان کا کہنا تھا کہ پورے علاقے میں لڑکوں کے لئے ایک پرائمری اور ایک ہائی سکول موجود ہے جو خستہ حال کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں، ہائی سکول کو 2012 میں دہشت گردی کی لہر کے دوران بم سے اڑا دیا گیا تھا، ابھی تک اسی حالت میں موجود ہے، گاوں کے بچے ان سکولوں میں سردی گرمی میں اپنے ٹینٹوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
سوشل ایکٹوسٹ کے مطابق موسی درہ میں لڑکوں کی شرح خواندگی 25 تا 30 فیصد لیکن اس کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح خواندگی صفر ہے، لڑکیوں کی شرح تعلیم نہ ہونے کی اصل وجہ علاقے میں تعلیمی مراکز کی محرومی تھی، 10 سال پہلے ایک غیرسرکاری تنظیم کے تعاون سے علاقے میں لڑکیوں کیلئے دو پرائمری سکول تعمیر کروائے گئے مگر بدقسمتی سے تعلیمی سلسلہ آج تک شروع نہیں کیا جا سکا، ان سکولوں کیلئے حکومت کی طرف سے ٹیچرز کو بھرتی کرنے کیلئے کئی دفعہ آرڈر جاری کئے گئے لیکن کسی ایک پر بھی ابھی تک عمل نہیں کیا جا سکا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لڑکیاں اپنی تعلیمی صلاحیت سے ایک نسل کو پروان چڑھاتی ہیں، تعلیم یافتہ عورت معاشرے کا ایک فعال کردار ہے، لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا نقصان ایک پوری نسل کو اٹھانا پڑتا ہے۔
موسی درہ کی مقامی آبادہ شکوہ کناں ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں قومی نمائندوں کو صرف الیکشن کے دوران ہی قوم یاد آتی ہے جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو نمائندے اسلام آباد بنانے کے وعدے کرتے ہیں اور انتخابات کے بعد غائب ہو جاتے ہیں، ”حکومت اور محکمہ تعلیم کے حکام سے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کیلئے بار بار مطالبے کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب ہی نہیں ملتا۔”
سابقہ فاٹا کے مسائل کے حل کیلئے اربوں کے فنڈز کے علاوہ سالانہ بجٹ میں بھی رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں کچھ معلوم نہیں، المیہ یہ ہے کہ سابقہ فاٹا کا بنیادی حقوق کی فراہمی کے نام پر مرجر کیا گیا تھا لیکن یہاں پر سہولیات کی فراہمی کا پہیہ جام ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہی کہ یہاں کے منتخب نمائندوں نے علاقہ کے مسائل کے حل کیلئے ایک دورہ بھی نہیں کیا، محکمہ تعلیم اور انتظامیہ بنیادی سہولیات کی فراہمی سمیت تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں، یہاں پر حکومتی اور انفرادی طور سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے علاقے کی پسماندگی کو ختم کرنے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔