فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

کیا ممانڑہ آفریدی قبائلی خواتین کی امیدوں پر پورا اُتر پائیں گی؟

 

خالدہ نیاز

خیبرپختونخوا کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن نے اپنا دائرہ کار قبائلی اضلاع تک بڑھا دیا۔ اس سلسلے میں ضلع خیبراور اورکزئی میں کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہے اور ممبران کو ذمہ داریاں بھی تفویض کردی گئی ہے۔ ضلع خیبر میں ممانڑہ آفریدی کو کمیٹی کا چیئرپرسن بنایا گیا ہے جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے کئی سال تک کام کیا ہے۔

ممانڑہ آفریدی کون ہیں؟

ممانڑہ آفریدی 2012 سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں ان کا تعلق ضلع خیبرلنڈی کوتل سے ہے۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کررکھا ہے۔

ممانڑہ آفریدی 2015 سے پروفیشنل طریقے سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں، تین سال قبل انہوں نے ٹی این این کے توسط سے صحافت کی دنیا میں بھی جب قدم رکھا تو کوشش کی کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ کام کریں۔ اس کے ساتھ ایسے مختلف تنظیموں کے ساتھ بھی منسلک رہی ہے جو خواتین کے حقوق اور ترقی کے لیے کام کررہے ہیں۔

قبائلی خواتین کو قوانین سے متعلق آگاہی دیں گے

ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران ممانڑہ آفریدی نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کا خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد جس طرح وہاں عدالتیں قائم ہوئی اور پولیس نظام کا نفاذ ہوا اسی طرح کمیشن آن سٹیس آف ویمن کا دائرہ اختیار بھی ان اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے تاکہ قبائلی خواتین بھی ان قوانین سے آگاہ ہوسکیں جو ان کے لیے بنائے گئے ہیں۔

‘ ہمارا کام یہ ہوگا کہ ہم سب سے پہلے قبائلی خواتین کو ان قوانین اور آرڈیننس کے بارے میں بتائیں گے جو موجود ہیں کہ وہ کیا ہے اور کس طرح خواتین ان سے فائدے لے سکتی ہیں مثال کے طور پر گھریلو تشدد کا قانون جو کچھ عرصہ قبل پاس ہوا ہے اس کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے کونسا قانون موجود ہے’ ضلع خیبر کی چیئرپرسن نے بتایا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے نیپال بھی گئی تھی جس میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈیا اور جنوبی ایشیا کے باقی ممالک کی خواتین نے بھی شرکت کی تھی اور اس میں خواتین کے مسائل اور اس کے حل پہ بات ہوئی تھی کہ کس طرح خواتین کو  بااختیار بنایا جاسکتا ہے اور انکے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

2009 میں صوبائی اسمبلی سے ایک قانون پاس کرایاگیا تھا جس کے تحت صوبائی کمیشن برائے سٹیٹس آف ویمن کا قیام عمل میں لایا گیا، مذکورہ ایکٹ میں 2016میں ترمیم کے ذریعے کمیشن کو مالی اور انتظامی خود مختاری دی گئی ۔ یہ کمیشن اب مکمل طور پر فعال ہے اور اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کر رہا ہے۔

کمیٹی دیکھے گی خواتین کو کام کی جگہوں پہ کوئی مسئلہ تو نہیں  

ممانڑہ آفریدی نے کہا کہ خواتین میں اپنے حقوق اور قوانین کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے ساتھ وہ ضلع خیبر میں مختلف تعلیمی اداروں اور کام کے باقی جگہوں جہاں پر خواتین کام کرتی ہیں وہاں انکی ٹیم جائے گی اور وہاں دیکھیں گے کہ خواتین کو واش روم کی اور باقی سہولیات میسر ہیں یا نہیں اور ساتھ میں یہ بھی دیکھے گی کہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنی ہوئی ہے یا نہیں۔

‘ ہم ہراس جگہ جائیں گے جہاں پہ خواتین موجود ہونگی چاہے وہ کام کرنے والی جگہیں یا پھر ایسی جگہیں ہو جہاں خواتین کو امداد وغیرہ ملتا ہو ہم دیکھیں گے کہ خواتین کو اس جگہ پہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے  اور انکو بنیادی سہولیات میسر ہے کہ نہیں’ ممانڑہ آفریدی نے کہا۔

ممانڑہ آفریدی نے بتایا کہ جب خواتین اس قابل ہوجائے گی کہ انکو قوانین کا پتہ چل جائے گا تو اس کے بعد وہ انکے پاس آکر اپنا مسئلہ بتا سکتی ہے اور انکے پاس اتھارٹی ہوگی کہ وہ انکی درخواست متعلقہ محکمے کو بھیجے اور بعد ازاں محکمے سے اس حوالے سے بھی رابطہ کیا جائے گا کہ معاملہ کہاں تک پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس کمیٹی کو بھی تحفظ فراہم کرے گی اور جس خاتون نے درخواست دی ہے اس کو بھی تحفظ فراہم کرے گی کیونکہ خواتین سے متعلق معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گے

چیئرپرسن خیبرممانڑہ آفریدی نے بتایا کہ انکی کمیٹی میں 7 خواتین اور ایک مرد شامل ہیں، خواتین میں ایک اقلیتی برادری سے بھی تعلق رکھتی ہے جو خواتین کی بہتری کے لیے کام کریں گی ‘ ہم نہ صرف ہراسمنٹ کے حوالے سے کام کریں گے بلکہ خواتین کو زندگی میں جو بھی مشکلات درپیش ہوتی ہے جہاں وہ معاشی طور پر ناانصافی ہو، گھریلو تشدد ہو، جائیداد میں حصے کا مسئلہ ہو یا پھر ذہنی اور جسمانی تشدد ہو ان سب پہ ہم کام کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین بااختیار ہوجائے اور انکی زندگی بہتر ہوسکیں’ ممانڑہ نے کہا۔

ممانڑہ آفریدی نے انٹرویو کے دوران یہ بھی بتایا کہ کمیٹی جلد ہی ایک ٹول فری بھی متعارف کرائے گی اور ساتھ میں ایک شیلٹر ہوم بھی بنائے گی تاکہ جن خواتین کو درخواست جمع کرنے کے بعد کوئی مسئلہ ہو وہ وہاں رہائش اختیار کرسکیں اور اس کے علاوہ ان خواتین کو قانونی مدد بھی فراہم کی جائے گی۔

کمیٹی کا کام صرف مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ حل بھی ہوگا

ممانڑہ آفریدی کا کہنا ہے کہ کمیٹی کا کام صرف مسائل کو اجاگر کرنا نہیں ہوگا بلکہ وہ ان مسائل کو حل بھی کرے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ قبائلی خواتین کو اپنے حقوق اور قوانین کے حوالے سے علم ہو کیونکہ ان کو ہمیشہ سے اپنے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے’ پہلے جب کبھی قبائلی ضلعے میں خواتین کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تھی یا ان پر کوئی الزام لگتا تو جرگوں میں انکی رائے نہیں لی جاتی تھی جس کی وجہ سے کئی خواتین کے ساتھ ناانصافی ہوچکی ہیں’

ممانڑہ آفریدی کے مطابق قبائلی اضلاع سے ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اب حالات بدل چکے ہیں اب کوئی خواتین کے ساتھ زیادتی اتنی آسانی سے نہیں کرسکتا کیونکہ اگر کوئی شخص کسی خاتون کے حقوق کی خلاف ورزی کرے گا تو اس حوالے سے خاتون عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے تھانے جاسکتی ہے جہاں پہ جرم کرنے والے شخص کو سزا ہوسکتی ہے۔

انضمام کے ثمرات قبائلی خواتین تک آنا شروع ہوگئے

ممانڑہ آفریدی نے بتایا کہ انضمام کے ثمرات قبائلی خواتین تک آنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ پہلے قبائلی اضلاع میں ”غگ رسم” بہت عام تھا جس میں کوئی بھی جوان کسی خاتون کے گھر سامنے فائرنگ کرکے اعلان کرتا تھا کہ آج سے یہ لڑکی میری ہوئی لیکن اب پولیس نے کئی ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جنہوں ایسا کیا، اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ضلع خیبر تیراہ میں جو غیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں پہلی مرتبہ اسکی ایف آئی آر درج ہوچکی ہیں جو کہ بڑی بات ہے۔

ممانڑہ آفریدی کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کریں گی کہ قبائلی اضلاع کی خواتین بااختیار ہوجائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قبائلی بچیاں تعلیم حاصل کرلے کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔

‘قبائلی اضلاع کی خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہی ہیں اور انکو اس حوالے کچھ پتہ بھی نہیں ہے تو جب میں نے صحافت شروع کی تب میں نے ایسے موضوعات پربات کی جس پر کبھی بات نہیں کی گئی تھی مرد صحافیوں کی جانب سے’

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button