پشتو ادب میں جدید اور علامتی افسانے کے امام طاھر آفریدی بھی چل بسے
سلمان یوسفزے
پشتو زبان کے معروف افسانہ نگار طاہر آفریدی طویل علالت کے بعد 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ گزشتہ شب کراچی میں ادا کی گئی جبکہ آج سہ پہر ڈھائی بجے ان کے آبائی گاؤں بوڑہ کے قریب شریکیرہ محلہ شیرمیر میں ان کی نماز جنازہ دوبارہ ادا کی گئی اور انہیں وہیں سپردخاک کر دیا گیا۔
کراچی میں سہ ماہی مجلہ” جرس ” کے بانی و مدیر طاہر آفریدی گزشتہ کئی عرصہ سے بیمار تھے اور کراچی کے سول ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
معروف افسانہ نگار کی وفات کو خیبر پختونخوا سمیت افغانستان کی بیشتر ادبی تنظیموں نے پشتو ادب کیلئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پشتو ادب کے نامور شاعر پروفیسر اباسین یوسفزئی نے بتایا کہ طاہر آفریدی بحیثیت انسان ایک عظیم شخصیت تھے جبکہ بحیثیت لکھاری وہ نہ صرف ایک بہترین افسانہ نگار تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ پشتو زبان کے ایک بہترین مجلہ” جرس” کے بانی و مدیر بھی رہ چکے ہیں۔
اباسین یوسفزئی کے مطابق جرس مجلے کا تحقیق اور تنقید کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے جس کے مضامین کو آج بھی ہم بطور ثبوت اور اعتبار استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس مجلے میں خیبر پختونخوا سمیت بلوچستان اور افغانستان کے نامور لکھاریوں کے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
” طاہر آفریدی نے مجموعی طور 21 کتابیں لکھی ہیں جن میں افسانے، ناول، ڈرامہ اور رپورتاژ شامل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر آفریدی نےحقیقی معنوں میں افسانے کو ترقی پسندی اور جدیدیت کا رنگ بخشا ہے تاہم طاہر آفریدی اور زیتون بانو کا شمار پشتو ادب کے ان افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے جہنوں نے انتہائی بولڈ افسانے لکھے ہیں جس میں معاشرے کی اخلاقی خامیوں پر بہت کھل کر بات ہوئی ہے۔”
اباسین یوسفزئی کے بقول اس کے علاوہ طاہر آفریدی نے سفرنامے اور رپورتاژ بھی لکھے ہیں جن میں افغانستان، قطر اور دیگر ممالک کے سفرنامے اور رپورتاژ شامل ہیں جن میں انہوں نے بطور تبلیعی اپنی زبان اور ثقافت کو شعوری طور اجاگر کیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس پلیٹ فارم پر بھی خود کو ایک اعلیٰ مقام پر پیش کیا ہے۔
دوسری جانب پشتو زبان کے شاعر اور موسیقار امجد شہزاد اباسین یوسفزئی سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طاہر آفریدی کے اردو افسانوں میں بھی پشتون ثقافت، مسائل اور محرومیوں کی جھلک نمایاں ہے اور اسی طرح طاہر آفریدی نے پشتون قوم کے ثقافت، مسائل اور محرومیوں کو اردو زبان میں بھی بیان کیا ہے جو کہ قابل تعریف ہے۔
امجد شہزاد کے مطابق طاہر آفریدی کو پشتو ادب میں بحیثیت استاد بھی مانا جاتا ہے اور انہوں نے کراچی میں ادب سے وابستہ نوجونواں کے لئے جرس ادبی جرگہ کے نام سے تنظیم بنائی تھی جس میں نامور شعراء قیصر آفریدی، مرحوم ریاض تسنیم، ننگیال یوسفزئی، طاہر بونیرے اور رحمان بونیرے نے طاہر آفریدی کی سرپرستی میں پشتو ادب کے لئے بہت کام کیا ہے۔
کراچی میں مقیم اور مرحوم طاہر آفریدی کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے پشتو کے معروف ادیب ماخام خٹک کے مطابق طاھر آفریدی نے نصابی تعلیم واجبی سی حاصل کی لیکن خداداد صلاحیت کی بنا پر نہ صرف لکھنا پڑھنا سیکھ گئے بلکہ ایک لکھاری اور ادیب بھی بن گئے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ماخام خٹک نے بتایا کہ بقول طاھر آفریدی کے انہوں نے اپنا پہلا افسانہ (”ستا نا پہ غم کے کمہ نا یم) 1961 میں لکھا اور چھپا تھا۔
ماخام خٹک کے مطابق ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”د محلونو خوا کے” (محلات کے سائے میں)، افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”پانڑے پانڑے” (برگ در برگ)، تیسرا مجموعہ ”دیدن” اردو، چوتھا مجموعہ ”لارہ کے ماخام” (راستے میں شام) اور بقول ان کے یہ فردوس حیدر کے افسانوی مجموعے سے متاثر ہو کر ان سے پوچھ کر رکھا گیا تھا، پانچواں افسانوی مجموعہ ”بیا ہغہ ماخام دے” (پھر وہی شام ہے)، چھٹا افسانوی مجموعہ ”نور خوبونہ نہ وینم” (اور خواب نہیں دیکھوں گا)، ساتواں افسانوی مجموعہ پہ ”زنزیر تڑلے خوب” (مقفل خواب)، آٹھواں افسانوی مجموعہ ”د سو لحظو لویہ قیصہ” (چند لمحوں کا طویل قصہ)، نواں افسانوی مجموعہ ”مودہ پس اشنا راغلے” (عرصہ بعد صنم آیا ہے)، دسواں اور آخری افسانوی مجموعہ ”ستاسرہ خبر ے” (تیرے ساتھ مکالمہ) لکھے اور پشتو ادب میں جدید اور علامتی افسانے کے امام کہلائے۔
”اسی طرح انہوں نے کئی ممالک کا سفر کیا جس کی روداد انھوں نے سفر ناموں اور رپورتاژ کی صورت میں سپرد قلم کی، جو اس طرح ہیں، ”سفر پہ خیر” (سفر بخیر)، ”سفر مدام سفر” (سفر در سفر)، ”جانان مے قطر تہ راون دے” اور ”لاڑ شہ پیخور تہ”، ان رپورتاژوں کے نام پشتو کے مشہور فوکلور گیتوں سے اخذ کئے گئے ہیں جن کا ترجمہ ہے، بالترتیب (یارِ من پھر قطر کا رخت سفر باندھ رہا ہے) اور (پشاور چلے جانا)، ان میں ایک اور سفرنامہ ”زہ چے زو کابل تہ” (چلو کابل چلتے ہیں) بھی شامل ہے۔ طاہر آفریدی نے ناول لکھنے پر بھی طبع آزمائی کی اور پہلا پشتو ناول ”کانڑو کے رگونہ” (رگ سنگ) لکھا جس کا اردو ترجمہ پروفیسر اسیر منگل نے ”کہساروں کے یہ لوگ” کے نام سے کیا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ طاھر آفریدی نے اردو میں ایک ناول ”تیری آنکھیں خوب صورت ہیں” لکھا جس کا پشتو ترجمہ ہمارے دوست شاعر ادیب اور صحافی بارک میاں خیل نے ”شین سترگے” کے نام سے کیا ہے، ”آخری ناولٹ ”تربوزک” (نقاب) لکھا جو حالت حاضرہ اور عصر حاضر کا حقیقت پر مبنی صورت حال بیان کرتا ہے، انہوں نے جرس ادبی جرگہ کی ماہانہ ادبی تنقید کی روداد پر مبنی ایک کتاب ”زہ تنقید خو بہ کمہ” (تنقید تو میں کرتا رہوںگا) مرتب کی ہے، اسی طرح پشتو ادب کے مایہ ناز شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے خطوط پر مشمل کتاب ”گوتے قلم تہ پہ ژڑا شوے” (انگشت بہ گریان قلم) بھی مرتب کی۔ اس کے علاوہ طاہر آفریدی کے مختلف مضامین پر مشمتل ایک کتاب حال ہی میں پشتو اکیڈمی کوئٹہ نے ”ادبی پانڑے” (ادبی قرطاس) کے نام سے چھاپی ہے۔ طاہر آفریدی نے کراچی میں سال انیس نوے میں ”جرس ادبی جرگہ” کی بنیاد رکھی اور ساتھ ساتھ ”جرس پشتو ادبی رسالہ” کا بھی اجرا کیا۔”
طاہر آفریدی 4 جنوری 1939 کو درہ آدم خیل کے سب ڈویژن حسن خیل بوڑی سوکڑہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور شروع میں طاہر اثر کے نام سے شاعری کرتے تھے تاہم بعد میں انہوں نے طاہر آفریدی کے نام سے افسانے لکھنا شروع کئے اور اسی نام سے شہرت پائی۔
وہ 1961 میں کراچی منتقل ہوئے تھے جہاں وہ پہلے ایک کار پارکنگ میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے تھے تاہم بعد میں انہوں نے گاڑیوں کی ایک کمپنی کھولی اور بہت خوشحال ہوئے، وہ تادم مرگ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم رہے۔
مرحوم طاہر آفریدی کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کئi ایوارڈز سے نواز گیا ہے اور افغان حکومت کی جانب سے انہیں غازی میر باچا خان مڈل بھی دیا گیا ہے۔