‘مردان میں تمام رہائشی کالونیاں زرعی زرخیز زمینوں پر بنی ہوئی ہے’
عبدالستار
ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیسز کے اخراج کی بھرمار نے گرین ہاؤس کو متاثرکرکے نہ صرف خود بلکہ پوری دنیا کومختلف موسمیاتی مسائل کی جانب دھکیل دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں ملا ہے جبکہ وقت سے پہلے بارشوں،سیلابوں اور سمندری طوفان کے ساتھ جنگلات میں آگ لگنے جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
کلائیمیٹ چینج میں ترقی یافتہ ممالک کے بڑے کردار کے ساتھ ترقی پزیر ممالک بھی ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان اور خیبرپختونخوا میں بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زندگی کے مختلف شعبے متاثرہیں۔ موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس کا مقابلہ ہم سرسبز ماحول کے ساتھ کرسکتے ہیں جس کے لئے اپنے ارگرد ماحول کو صاف ستھرا اور سرسبز رکھنا ہوگا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا اور الٹا ہم سرسبز ماحول کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سرسبزماحول کو زیادہ متاثر کرنے میں غیرقانونی رہائشی کالونیوں کا ہاتھ ہے کہ آئے روز زرعی زمینوں کو ہاوسنگ سوسائیٹیز میں تبدیل کردیا جاتا ہے جس سے نہ صرف زراعت متاثر ہوتا ہے جبکہ اس زمینوں پر موجود درختوں کو بھی ختم کیا جاتا ہے اور اسکی جگہ بڑی بڑی بلڈنگ کھڑی کی جاتی ہے جس سے نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
دوسرے اضلاع کی طرح خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا ضلع مردان بھی غیرقانونی رہائشی کالونیوں کی وجہ سے بہت متاثر ہے اور دن بدن زرعی زمینوں پر چھوٹے چھوٹے کالونیاں بن رہی ہے۔ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن مردان کے تفصیل کے مطابق مردان تحصیل میں اس وقت 16ہاوسنگ سوسائیٹیز قانونی جبکہ 18 غیرقانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز زرعی زمینوں پربنی ہوئی ہے۔ ٹی ایم اے کے ڈیٹا کے مطابق آج سے دس سال پہلے مردان تحصیل میں صرف دس رہائشی کالونیاں موجود تھی جبکہ اب اسکی تعداد34تک پہنچ چکی ہے اور اس کے علاوہ بھی زرعی زمینوں پر رہائشی اور کمرشل بلڈنگ بننے میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہاہے۔
ادرہ شماریات پاکستاان کے مطابق گززشتہ دو دہائیوں کے دوران آبادی میں اضافے کے ساتھ ہاؤسنگ کے شعبے میں قرار واقعی وسعت دیکھنے میں آئی، 1998 میں 21 لاکھ مکانات کے مقابلے میں 2017 میں 38 لاکھ مکانات ریکارڈ کیے گئے۔
2005 کی سائٹ ڈویلپمنٹ سکیم کے تحت ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کیلئے اراضی، ادارہ تحفظ ماحولیات سے این او سی کا حصول، سڑک تک رسائی اور لوکیشن پلان ایسی کئی لوازمات ہیں۔ تاہم زرعی اراضی پر ہاوسنگ سکیموں پر پابندی یا تحدید کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
رہائشی کالونی کے لئے ٹی ایم اے سے این او سی لینا ضروری ہوتا ہے لیکن پراپرٹی ڈیلرز پہلے کالونی بنانا شروع کردیتا ہے اور زرعی زمینوں پر روڈز اور تعمیراتی کام شروع کرکے لوگوں کے ساتھ پلاٹوں کی خریدوفروخت شروع کردیتا ہے جبکہ ٹی ایم اے کے رولز کے مطابق رہائشی کالونی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی زمین 160کنال سے کم نہ ہو اور وہ زمین عرصہ درازسے بنجر آرہاہو یعنی زراعت کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہو جبکہ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے سے بھی این اوسی کی سرٹیفیکیٹ لینا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں رہائشی کالونی بنانے کے سب کچھ قانون کے برعکس ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ضلع مردان کے ڈسٹرکٹ ایگریکلچرڈائریکٹر عبدالقیوم نے ٹی این این کو بتایا کہ ضلع مردان میں جس طرح تیزی کے ساتھ زرعی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں یہ ایک قابل تشویش بات ہے اور ایک اندازے کے مطابق تحصیل تحت بھائی میں 1986سے اب تک پانچ سو ایکڑزرعی زمین کم ہوکر ہاوسنگ اور کمرشل تعمیرات کے لئے استعمال ہوچکا ہے یہ صرف تخت بھائی کی بات نہیں ہے بلکہ پورے ڈسٹرکٹ مردان میں جتنی بھی رہائشی کالونیاں بنی ہوئی ہے وہ تمام زرعی زرخیز زمینوں پر بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کالونیوں سے نہ صرف زرعی زمینیں ختم ہورہی ہے بلکہ اس زمینوں پر جو درخت موجود ہوتے ہیں اس کو کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی ماحولیاتی خرابی یہ بھی ہے کہ ان تمام ہاوسنگ سوسائیٹیز کی کوئی خاص نکاسی آب کا انتظام نہیں ہوتا اور جن نہروں اورندیوں سے زرعی زمینوں کو پانی دیا جاتا ہے اس کالونیوں کے نکاس کا گندہ پانی ان نہروں اور ندیوں مین چھوڑا جاتا ہے جس سے فصل اور سبزیوں کو صاف پانی نہیں دیا جاسکتا اور اس گندہ اور آلودہ پانی کی وجہ سے زرعی زمین سے حاصل کی گئی فصل انسانی صحت کے لئے نقصان دن ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن عمل میں نہیں لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مردان میں جو نہریں بہتی ہے ان میں گھروں سے گٹرلائن اور دوسرے سیورج لائن کو چھوڑا گیا ہےجبکہ کوڑا کرکٹ جس میں پلاسٹک بیگ اور بوتلیں شامل ہوتی ہیں نہروں میں پھینک دیئے جاتے ہیں جس سے زرعی زمینوں کو جانے والی پانی دینے میں بھی مشکل ہوتا ہے اور صحت کے لئے نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ بھر میں زرعی زمینوں کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں ان زمینوں پرغیر قانونی تعمیراتی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت اب تک صوبے کے مختلف اضلاع میں 65 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو سیل کیا گیا جبکہ 6 سو سائٹیز میں غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا گیا ہے۔ 235 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو نوٹسز جاری کیے گئے جبکہ 196 کے خلاف ایف آئی آرز بھی درج کرائی گئی ہیں۔
ایگریکلچرڈائریکٹر عبدالقیوم نے کہا کہ جن سرسبززرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بن گئی ہیں ان پر پورے سال گنے اور مکئی کا سرسبز فصل موجود ہوتا تھا جو ایواپوریشن کے ساتھ قدرتی ہوامیں نمی کو چھوڑتا ہے جس سے وہ علاقہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور اس زمین پر سوسائیٹیز بننے کے بعد ہوا میں نمی بھی ختم ہوگئی ہے اور ساتھ ہی کنکریٹ آبادی سے گرمی میں اضافہ ہوجاتاہے اور موحولیاتی تبدیلی میں اگردیکھا جائے توسرسبززمینوں کی جگہ کنکریٹ کی آبادی نے لے لی ہے جس سے تپش میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کے ارگرد ماحول میں نہ صرف انسانی صحت بلکہ فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں غیرقانونی اور زرعی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائٹیز کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے تاہم منتخب ایم پی ایز اس حوالے سے اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دو روز قبل جماعت اسلامی کے عنایت اللہ نے زرعی زمینوں نے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ اسمبلی میں پیش کیا ہے۔
قانونی مسودے کے مطابق اجازت نامہ کے بغیر کسی کو بھی زرعی اراضی پرہاوسنگ سوسائٹی تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو 5 سال قید اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔