جرنلسٹ پروٹیکشن بل: صحافی کیا چاہتے ہیں؟
عائشہ یوسفزئی
وفاقی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل صوبائی اسمبلی میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت و معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلیٰ تعلیم کامران بنگش کے مطابق بہت جلد وفاقی حکومت کی طرز پر صحافیوں کے تحفظ کا بل اسمبلی میں پیش کریں گے۔ بل صحافیوں کی بنیادی حقوق، تربیت، انشورنس اور تفتیش سمیت دیگر اہم امور پر مشتمل ہوگا۔
پاکستان میں چند روز قبل قومی اسمبلی میں صحافیوں اور میڈیاپروفیشنلز کے تحفظ کے لیے جرنلسٹ پروٹیکشن بل پیش کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے صحافیوں اور میڈیا پرسنزکی آزادی غیر جانبداری تحفظ اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کے لئے دو سال تک تگ ودو کے بعد یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کیا ہے تاہم سینیٹ سے ابھی اس کی منظوری باقی ہے۔ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کا مقصد قانون صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہ حق دینا ہے کہ وہ ملک کے اندر تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں اپنے صحافتی فرائض بغیر کسی رکاوٹ کے بخوبی سر انجام دے سکیں۔
اس بل کے تحت حکومت کسی بھی شخص ادارے چاہے وہ نجی ہو یا سرکاری یا اتھارٹی کے ہاتھوں میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہر قسم کی زیادتی اور استحصال سے بچانے کیلئے اقدامات کرے گی۔ رپوٹرز ود آؤٹ بارڈرز سے منسلک صحافی اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ جب حکومت یہ بل بنارہی تھی تو اس وقت صحافیوں اور ان تنظیموں سے جوکہ صحافت سے وابستہ لوگوں کی حفاظت اور حقوق کے لیے مبارزہ کرتے ہیں کے ساتھ ڈرافٹ شریک کیا تھا مگر اب جو بل کابینہ نے منظور کیا ہے تو اب یہ پتہ نہیں کہ آیا اسمیں وہ ساری چیزیں شامل کی گئی ہے جوکہ ہمیں دکھائی گئی تھی یاپھر ان میں سے کتنی ہٹائی گئی ہے اور اسکی جگہ کیا نئی باتیں ڈالی گئی ہے۔
‘جو پرانا بل حکومت نے ہمارے ساتھ شئیر کیا تھا اگر وہ ساری باتیں اسمیں ہیں تو پھر میرا یہ ماننا ہے کہ یہ ایک اچھا بل ہے کیونکہ اسمیں اقوام متحدہ کا جو یو نائٹڈ پلان آف ایکشن ہے صحافیوں کے تحفظ کے لئے جو طریقہ کار واضح کیا ہے وہ طریقہ کار اس بل میں حکومت نے تسلیم کیا ہے اور یہ بل اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج تک پاکستان میں جتنے بھی صحافیوں کو قتل کیا گیا ان کے قاتلوں کو سزا دینے پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا ایسے ہمارے پاس تین کیسز ہے جیسے کہ ڈینئیل پرل ولی خان بابر اور ایوب خٹک کیسز میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے ان ملزمان کی رہائی کا حکم دیا جن پر اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام تھا تو اس قسم کے حالات میں صحافت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے’ اقبال خٹک نے بتایا۔
ایک اور صحافی گوہر کے مطابق یہ جو میڈیا پروفیشنلز کے لئے بل بنایا گیا ہے یہ بل حکومت اور مختلف صحافتی تنظیموں کے درمیان ہونے والی مشاورت کے نتیجے میں تیار کیا گیا ہے اس بل میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے، مثلا یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صحافیوں سے آئندہ کسی بھی فورم پر ان کے خبر یا معلومات کے بارے میں زرائع کے حوالے سے پوچھا نہیں جائیگا دوسرا یہ کہ صحافی کسی بھی علاقے میں بلا خوف و خطر جاکر کام کرسکے گا ان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا اور اس سے بڑھ کر جو ایک اہم نقطہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اس بل کے تحت مالکان کو اور اخبارات کو اس بات کا پابند بنایا جائیگا کہ وہ اپنے کارکن صحافیوں کے لئے ایک سیکیورٹی پالیسی مرتب کریں کہ ان کو تحفظ دیا جاسکے۔
انہوں نے مذید کہا کہ پاکستان میں فریڈم نیٹ ورک نتنظیم نے رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پچھلے ایک سال میں صحافیوں کے اوپر تشدد اور حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے مگر رواں سال ان واقعات میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق ایک سال کیسز کا ریکارڈ ایک سو اڑتالیس کے لگ بھگ ہے لیکن زیادہ تر کیسز اسلام آباد اور آزاد کشمیرمیں ریکارڈ کئے گئے ہیں بہ بسبت سابقہ قبائیلی علاقوں کے اب اگر حکومت اس بل پر سنجیدگی کیساتھ کام کرے تو یہ صحافیوں کے لئے ایک اچھی کاوش ثابت ہو سکتی ہے۔
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صحافی کارکنوں کو ادارے کے اندر بھی بہت سر مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ تنخواہوں کے حوالے سے ہو۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی فدا عدیل نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بتایا کہ ہمارے فیلڈ میں چاہے جتنا بھی کام سخت ہو جان پر کھیل کر ہم وہ کام پورا کرتے ہیں تاکہ عوام تک پوری اور سچ معلومات پہنچائی جاسکے مگر اس کے باوجود ہماری جاب سیکیورٹی کا مسئلہ چلا آرہا ہے کہ اداروں کے اندر ایک ای میل یا فون کے زریعے لوگوں کو کام سے نکال دیا جاتا ہے اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا مسئلہ پیش آیا ہے کہ تقریبا ایک سال پہلے جب میں ایک نجی ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹرکام کر رہا تھا تو ایک ہی ای میل آئی مالکان کی طرف سے جسمیں ہمیں یہ کہا گیا کہ آج سے یہ چینل بند کیا جارہا ہے اور ایسا ہی ہوا اس ادارے کے جتنے ملازمین تھے ان کو فارغ کردیا گیا سارے ہی بے روزگار ہو گئے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پورے پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں صحافی بے روزگار ہیں ان کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، صحافیوں کو جاب سیکورٹی حاصل نہیں ہے کچھ بڑے ادارے ایسے ہیں کہ انکا نظام ٹھیک ہے لیکن جو چھوٹے ادارے ہیں کہ جو سرکاری اشتہارات تو لے رہے ہیں اور حکومت سے مراعات بھی لے رہے ہیں لیکن صحافی کا جو حق ہے اسکی تنخواہ کی صورت میں اسکے علاوہ جو دیگر حقوق ہے اسکا خیال نہیں رکھا جارہا صحافی ایک ایسا طبقہ ہے جو کہ دوسروں کے حق کے لئے آواز اٹھاتا ہے لیکن خود بہت سی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
صحافیوں نے جرنلسٹ پروٹیکشن بل کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ انکو جاب سکیورٹی بھی دی جائے اور میڈیا مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صحافیوں کو انکے جائز حقوق دے۔