وادی تیراہ میں دو خواتین سمیت پانچ افراد کا غیرت کے نام پر قتل، بات علاقے سے باہر کیسے نکلی؟
خالدہ نیاز
ضلع خیبر کے دور افتادہ علاقے تیراہ میں رواں مہینے دو مختلف واقعات میں دو خواتین سمیت پانچ افراد کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے اور ضلع کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایسے واقعات کی باقاعدہ مقدمات درج کئے گئے ہیں جس کو ماہرین فاٹا انضمام کے ثمرات گردانتے ہیں۔
تیراہ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات میں مئی کے پہلے ہفتے میں ایک خاتون اور سکول کے دو اساتذہ کو اس بنا پر قتل کر دیا گیا کہ ان کے آپس میں ناجائز تعلقات ہیں۔
تیراہ کے علاقے ملک دین خیل میں دوسرا واقعہ مئی کے آخری عشرے میں پیش آیا جس میں چھ بچوں کے باپ گلاب شیر کو چالیس سالہ خاتون کے ساتھ بدنام کرکے قتل کر دیا گیا۔ مقتولہ کے بھی دو بچے ہیں اور علاقہ کے چند افراد کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی خاتون کی اپنے چچا زاد سے شادی ہوئی تھی اور طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر میں رہائش پذیر تھی اور مرنے والا شخص ان کا رشتہ دار تھا۔
بعض زرایع کا کہنا ہے کہ جس شخص کو قتل کیا گیا ہے اس کا مقتولہ خاتون کے گھر والوں سے مکان پر تنازعہ چل رہا تھا اور واقعے کو ویسے ہی غیرت کا رنگ دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں کیسز کے حوالے سے انہوں نے خود ایف آئی آر درج کئے ہیں اور ایک ملزم سمیت کئی سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا ہے۔
سماجی کارکن دولت خان آفریدی کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے تھے اور مقامی لوگوں کو پتہ بھی چل جاتا تھا لیکن چونکہ قبائلی اضلاع میں ایف سی آر کا قانون رائج تھا تو جرگے ہو جاتے تھے اور معاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا لیکن اب انضمام کے بعد ایسے واقعات پوری دنیا کے سامنے آرہے ہیں اور پولیس بھی اپنا کام کررہی ہے۔
ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی نوشین فاطمہ بھی ایک سماجی ورکر ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل صرف قبائلی اضلاع کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے پہلے تو پختون غیرت کے نام پر قتل کو قتل ہی نہیں مانتے تھے اور ان قتلوں کو لوگوں نے اپنی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
‘ ہم تو وہ لوگ ہیں جو 70 سال قانون سے محروم رہے اور ایف سی آر کے تحت زندگی گزاری ہے، ایف سی آر میں کسی کو بھی کوئی حقوق حاصل نہیں تھے اور خواتین کے حقوق کا تو کہیں نام و نشان تک نہ تھا لیکن اب فاٹا انضمام کے بعد حالات بہتری کی جانب گامزن ہے’ نوشین فاطمہ نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ عرصہ دراز سے قبائلی اضلاع میں خواتین کو غیرت کے نام پرقتل کیا جارہا ہے اور عموما ایسا ہوتا ہے کہ ان قتلوں میں غیرت کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور لوگ اس کو ویسے ہی غیرت کا نام دیے دیتے ہیں’ کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کسی کی دشمنی ہوتی تھی تو باہر جاکر اپنے دشمن اور گھر میں کسی خاتون کو قتل کردیتا تھا اور اس کو غیرت کا نام دے دیتا تھا اور روایات بھی ایسی ہوتی ہے پختونوں کی کہ پھر اس پہ کوئی بات بھی نہیں کرسکتا تھا’ نوشین فاطمہ نے کہا۔
2010 سے 2019 کے دوران صرف خیبرپختونخوا میں 475 خواتین اور 361 مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اپر دیر میں 76، صوابی میں 66، پشاور میں 53 اور سوات میں 44 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
نوشین فاطمہ نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے انضمام کی حامی رہی ہے کیونکہ وہ بات کو جانتی ہے کہ دیر سے ہی صحیح لیکن انضمام کے ثمرات سے قبائلی عوام مستفید ہونگے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اب قبائلی اضلاع میں پولیس ہے عدالتیں اپنا کام کررہی ہے اور اب اگر کہیں پہ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے تو اس کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ قبائلی اضلاع میں کیا ہو رہا ہے۔
نوشین فاطمہ کے مطابق اب بھی غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے حوالے سے ایف آئی آر بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ کم ہی صحیح لیکن رپورٹ تو ہورہی ہے کم از کم اس کو جرم تو مانا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک کمی یہ بھی ہے کہ ملزم تو پکڑے جاتے ہیں لیکن پھر ان کے مقدموں کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو پھر وہ ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔ نوشین فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے قتل کیسز کی پیروی خود کریں تاکہ ملزمان کو سزا ہو اور آئندہ کوئی بھی کسی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے سے پہلے سوبار سوچے۔
نوشین فاطمہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے دولت خان آفریدی نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ جس میں مخالفین نے دشمن کو قتل کرنے کے بعد گھر کی کسی خاتون کو بھی قتل کردیا ہو اور پھر اس کو غیرت کا نام دیا ہو تاکہ ان سے بدلہ نہ لیا جاسکے اور اس آڑ میں وہ اپنا کام بھی کرلے لیکن اب انضمام کے بعد ایسے واقعات میں کمی ہے کیونکہ اب قبائلی اضلاع میں قانون کی عملداری ہے اور لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر اس طرح کچھ کریں گے تو قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
دوسری جانب ایس ایچ او تھانہ تیراہ شمشاد کا کہنا ہے کہ فاٹا انضمام اور پولیس کا نظام آنے کے بعد انہوں نے اپنا کام شروع کیا ہے اور جہاں کہیں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں اس کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت انہوں نے بتایا کہ تیراہ میں کچھ روز قبل ایک مرد اور ایک خاتون کو قتل کیا گیا ہے اس واقعے کی نہ صرف انہوں نے ایف آئی آر درج کی ہے بلکہ حضرت محمد نامی ایک شخص کو گرفتار بھی کیا ہے جو خاتون کا رشتہ دار ہے۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ تین ہفتے قبل بھی تیراہ میں غیرت کے نام پر جو تین قتل ہوئے ہیں اس کی ایف آئی آر انہوں نے درج کی ہے لیکن اس میں تاحال کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ان کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام نے ایک لمبا عرصہ ایف سی آر کے تحت گزارا ہے تو عموما یہ لوگ ایسے واقعات کی ایف آر درج نہیں کرواتے تاہم وہ خود ایسے واقعات کی ایف آئی آر درج کرتے ہیں اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی جگہ جگہ چھاپے مارتے ہیں لیکن اس معاملے میں انکو عوام کے تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔