اٹھائیس مئی 1930 کو تخت بھائی ٹکر میں کیا ہوا تھا ؟
رفاقت اللہ رزڑوال
ضلع مردان کے تحصیل تحت بھائی کے علاقہ ٹکر میں انگریز سامراج کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں برسانے کی 91 سال مکمل ہوگئے، اسی مظاہرے میں 72 مظاہرین شہید ہوئے تھے۔
یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب 23 اپریل 1930 کو خدائی خدمتگار کے تحریک کے کارکن صوبے کے وسائل پر اپنی اختیار رکھنے کے مطالبے پر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں احتجاج شروع کیا تو اس وقت انگریز فوج نے مظاہرین پر گولیاں برسانا شروع کردئے جس کیخلاف صوبے کے عوام نے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کئے جس میں ایک ٹکر کا علاقہ بھی ہے۔
پختون رسالے کے چیف ایڈیٹر اور تحصیل تخت بھائی کے علاقہ ٹکر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ساجد ٹکر کا کہنا ہے کہ قصہ خوانی واقعہ کے بعد انگریز سامراج نے پختون قوم پرست، امن کے داعی اور انگریزوں سے آزادی کی حصول کی جدوجہد کرنے والے قائد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور اُنکے رفقاء کے خلاف نہ صرف مقدمات درج کئے بلکہ دیگر علاقوں سے تحریک کے ہم خیال ساتھیوں پر بھی گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔
ساجد ٹکر نے ٹی این این کو بتایا کہ ٹکر واقعے سے ایک دن قبل اُس وقت کے انتظامی امور کے انگریز سربراہ کرنل مرفی نے علاقے میں باچا خان کے ہم خیال ساتھیوں کو پکڑنے کا حکم دیا جس میں ملک معصم خان، سالار شمروز خان، صوبت خان ٹکر اور ملک وسیم گل بابا شامل تھے تاہم گاؤں والوں نے انہیں انگریز کے ہاتھوںگرفتار ہونے کی بجائے خود انہیں عزت و وقار کے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔
ساجد کے مطابق جب یہ لوگ اپنے مشران کو حکومت کو حوالے کرنے جا رہے تھے تو اُس وقت موقع پر موجود گھوڑے پر بیٹھے کرنل مرفی کے حکم پر ضلعی انتظامیہ نے عوام پر تشدد کرنا شروع کر دیا جس کے ردعمل میں کرنل مرفی کو گھوڑے سے نیچھے گرا کر ہلاک کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسکے بعد 28 مئی کی رات انگریز سامراج نے علاقہ ٹکر کا محاصرہ کرکے اعلان کیا کہ وہ گھروں کی تلاشی لینا چاہتے ہیں ‘مگر یہ تلاشی نہیں بلکہ غصب اور لوٹ مار تھی’۔ساجد ٹکر کے مطابق ” انگریز سامراج نے گھروں اور مساجد کو آگ لگا دی جبکہ جانوروں کو بھی گولیاں مار دی گئی اور گھروں میں پڑے غلا اور اناج کنوؤں میں پھینک دئے”۔
انکا کہنا ہے ” اُسی یلغار میں 72 لوگ شہید ہوئے اور دوسری طرف انگریزوں کی ایک سپاہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرے سپاہی کو گھر میں کھڑے بیل نے ٹکر مار کر ہلاک کردیا تھا”۔
قصہ خوانی میں پشتونوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
23 اپریل 1930 کو قصہ خوانی بازار پشاور میں انگریز سامراج سے اپنی حقوق کے مطالبے کیلئے صوبے کے عوام باچا خان کے انتظار میں جمع تھیں لیکن راستے میں انگریز ڈپٹی کمشنر میٹکاف نے باچا خان کو گرفتار کرلیا۔
جب مظاہرین نے اُنکی گرفتاری کی خبر سُنی تو پورے صوبے میں احتجاج کا دائرہ وسیع ہوگیا اور عوام مختلف علاقوں میں اکٹھا ہونا شروع ہوگئے۔اُس وقت ڈپٹی کمشنر نے عوام کو منتشر کرنے کا حکم دیا مگر کسی نے کان نہیں دھریا جس پر ڈی سی میٹکاف نے بکتربند گاڑیاں بلواکرمظاہرین پر چھڑایا اور چودہ لوگوں کو شہید کر دئے ۔
ٹکر واقعے کے بعد پشتونوں کو کیا ملا؟
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ پشتو کے چئیر مین ڈاکٹر سُہیل کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اور تاریخی واقعہ تھا مگر بدقسمتی سے ہماری نئی نسل کو اس قسم کے واقعات سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔
سہیل کے مطابق اُسی وقت کے دو سالوں میں انگریز سامراج نے چار خونی واقعات انجام دئے تھے جن میں اُتمانزئی، ہاتھی خیل، قصہ خوانی اور ٹکر کے واقعات شامل ہیں۔ جس کے بعد انگریز حکومت صوبے کو آئینی اختیارات دینے پر مجبور ہوگئی اور اُسی کے لئے باچا خان جدوجہد کر رہے تھے۔
ڈاکٹر سُہیل خان کا خیال ہے "آج بھی ریاست پشتونوں کے ساتھ وہی رویہ رکھتے ہیں جو 90 سال پہلے تھی، یہاں آج بھی آپ کو اقتدار تو دیا جاتا ہے مگر اختیار نہیں”۔
ڈاکٹر سُہیل نے کہا کہ اس واقعے کا اُس وقت نہ کسی اخبار میں خبر چھاپنے کی اجازت تھی، نہ شہداء کے ایف آئی آرز درج ہوئے اور نہ کسی کتابوں میں اسکا ذکر ملتا ہے لیکن اسکی ذکر پشتون شعراء اپنی شاعری میں کرتے رہتے ہیں۔
جس طرح مرحوم صاحب شاہ صابر کہتے ہیں۔
ته راته ووايه چې څۀ په کربلا کې شوي
ما په ټکر او په بابړه تبصره راوړې
ترجمہ : ( چلو تم سانحہ کربلا پر روشنی ڈالو، میں ٹکر اور بابڑہ میں ہونے والے ظلم کی داستاں سناتا ہوں)