مردم شماری کی رپورٹ میں تاخیر پر قبائلی اضلاع کے عوام ناراض کیوں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
ادارہ شماریات پاکستان سٹیٹسٹک بیورو نے ساڑھے تین سال کی تاخیر سے سال 2017 مردم شماری کی حتمی رپورٹ جاری کر دی ہے، مردم شماری کی رپورٹ کے نتائج کی صوبہ بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے تائید کردی جبکہ صوبہ سندھ اور قبائلی اضلاع کے سیاسی نمائندگان نے رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سٹیٹسٹک بیورو رپورٹ کے نتائج میں اُنکی نمائندگی کم دکھائی گئی ہے۔
رپورٹ میں خیبرپختونخوا کی کُل آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ 10 ہزار دکھائی گئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کی آبادی 49 لاکھ 90 ہزار گنی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1998 میں خیبرپختونخوا کی کُل آبادی ایک کروڑ 77 لاکھ تھی جبکہ صوبے کی آبادی میں 2017 تک 2 اعشاریہ 4 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اگر اسی حساب سے دیکھا جائے تو 1998 میں یہی شرح 2 اعشاریہ 96 ریکارڈ کی گئی تھی۔
مردم شماری بیورو کی تازہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں مردوں کی تعداد 1 کروڑ 54 لاکھ 44 ہزار 481 ہیں جبکہ خواتین کی تعداد 1 کروڑ 50 لاکھ 62 ہزار 440 ہیں۔
اسی طرح رپورٹ کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی 49 لاکھ 90 ہزار دکھائی گئی ہے جبکہ یہی آبادی سال 1998 میں کُل آبادی 30 لاکھ 18 ہزار تھی۔
قبائلی اضلاع میں مردوں کی تعداد 25 لاکھ 51 ہزار 715 اور خواتین کی تعداد 24 لاکھ 41 ہزار دکھائی گئی ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے PK-112 صوبائی اسمبلی کے آزاد امیدوار میرکلام وزیر نے رپورٹ کی تاخیر پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُنکے خیال میں رپورٹ میں لیت و لعل کی اصل وجہ زمینی حقائق اور کاغذات میں اکٹھا کیا گیا ڈیٹا ایک دوسرے کی برعکس تھا تو کاغذات میں ٹھیک کرنے کیلئے وقت لگایا گیا ہے۔
میرکلام نے کہا کہ فاٹا انضمام سے قبل جب شمالی وزیرستان میں امن کے قیام کے نام پر مختلف اپریشنز شروع کئے گئے تو شمالی وزیرستان کے تحصیل شوال، دتہ خیل، میران شاہ اور میر علی کے لوگوں کو پناہ گزین بنا دیا گیا تھا، تو اُس وقت آفات کی روک تھام کے وفاقی ادارے فیڈرل مینیجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) دعوے کر رہی تھی کہ انہوں نے ان تحصیلوں کے 16 لاکھ افراد میں امداد تقسیم کی ہے باوجود اسکے کہ دتہ خیل کے چھ سات ہزار گھرانوں نے افغانستان میں پناہ لی تھی لیکن حالیہ رپورٹ میں شمالی وزیرستان کی کُل ساڑھے 5 لاکھ آبادی ظاہر کی ہے۔
ممبر صوبائی اسمبلی میرکلام نے کہا کہ مردم شماری میں افراد کے حساب سے وسائل کی تقسیم ہو رہی ہے لیکن اُنکے الزام کے مطابق سبٓی سے لیکر چترال تک مردم شماری زمینی حقائق کے برعکس اور سرکاری کاغذات میں ردو بدل کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد پشتونوں کے علاقوں کی قومی اسمبلیوں کی نشستیں بھی نہیں بڑھائیں گے۔
"پنجاب میں تین لاکھ افراد کے اوپر ایک قومی اسمبلی کی سیٹ مختص کی گئی ہے جبکہ بنوں کے 12 لاکھ افراد کے اوپر صرف ایک سیٹ پر قومی اسمبلی میں نمائندگی ہوتی ہے جو پشتون عوام کا استحصال ہے”۔
میرکلام نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دوبارہ عوام اور میڈیا کے سامنے مردم شماری کی جائے اور کوئی بھی عمل عوام سے نہ چھپایا جائے تاکہ ملک بھر میں عوام کو اپنے حقوق اور وسائل مل جائے۔
قبائلی اضلاع کے علاوہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے عوام نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اور مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں دوبارہ مردم شماری کی جائے۔
رواں سال کے 12 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ 2021 کے اکتوبر میں دوبارہ ساتویں مردم شماری کی جائے گی جسکے تحت 2023 کے عام انتخابات ہونگے۔
اجلاس میں نئی مردم شماری کے انعقاد کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ میں لینے کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ کسی بھی طرف سے تحفظات باقی نہ رہیں۔ اجلاس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریوں نے شرکت کی۔
موجودہ مردم شماری رپورٹ پر ماہرین کی رائے
ماہرین کے مطابق 20 سال بعد مردم شماری کرنا اور پھر چار سال بعد اُسکے نتائج کا اعلان عوام کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے کے مترادف ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ شماریات کے چئرمین اور پاکستان سٹیٹسٹک بیورو کے گورنر کونسل کے ممبر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال نے ٹی این این کو بتایا کہ سال دو ہزار میں مردم شماری کے اوپر 17 ارب روپے کی لاگت آئی تھی جسکا فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے، وہ سمجھتے ہے کہ مردم شماری کی تاخیر کی نقصان سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع جبکہ کم نقصان پاکستان کی عوام کو ہوا ہے۔
کیسے مردم شماری کے نتائج کی تاخیر سے عوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "عوام کی ضروریات کیسے پوری ہوسکتے ہیں جب حکومت کو علم ہی نہیں ہے کہ ملک میں عوام کی آبادی کتنی ہے اب تک حکومت 1998 کے اعداد و شمار کے تحت عوام کی ضروریات پوی کرتے تھے، تو یقینی بات ہے کہ عوام کا استحصال ہوگا”۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے نتائج کی تاخیر کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نیشنل ازم کے چکر میں پھنس چکے ہیں اور ملک کی مجموعی فکر کو پس پُشت ڈالا ہے۔
"اگر مردم شماری میں بلوچستان میں پشتونوں کی تعداد زیادہ رپورٹ ہوئی ہو تو بلوچی ناراض ہوکر کہتے ہیں کہ کیوں اُنکی اپنی تعداد کم اور پشتونوں کی زیادہ ہے، تو ممکن ہے کہ پشتون زیادہ متاثر ہوجائے تو یہاں یہ بھی ایک مسئلہ ہے”۔
پروفیسر اقبال کا ماننا ہے کہ مردم شُماری سے قبل ملک بھر میں دوستانہ ماحول اورعملے کو باقاعدہ اور مناسب تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
"بدقسمتی سے پاکستان میں سب سے پہلے غیرتربیت یافتہ لوگ ڈیٹا جمع کرتے ہیں پھر جمع شُدہ ڈیٹا کو اپنی ذاتی مفادات کے لیے تبدیل کیا جاتا ہے، تو اُسکے بُرے اثرات عوام دس سال تک بھگت رہے ہیں”۔
انہوں نے مردم شماری کے حالیہ نتائج میں سابق قبائلی اضلاع کے عوام کی تحفظات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضم شُدہ اضلاع کی مردم شماری تقریباً 5 ملین ہے۔ انکے مطابق جب مردم شماری ہو رہی تھی تو وہاں لاکھوں لوگ پناہ گزین بن چکے تھے تو وہ راست طریقے سے شامل نہیں کئے گئے ہیں۔
"مردم شماری کے لئے ہونے والے اجلاس میں ہم نے دوبارہ پانچ سال بعد سنسز کرانے کی تجویز دی تھی اور کہا کہ قبائلی اضلاع کے عوام کے مسائل حل کئے جائیں کیونکہ وہاں کے عوام پہلے سے متاثر ہوئے ہیں اور غلط اعداد و شمار پیش کرنے سے وہ مزید مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں”۔
مردم شماری کی تاخیر پر سرکاری موقف
حالیہ مردم شماری پر سابقہ فاٹا کے عوام کے تحفظات اور پاکستان سٹیٹسٹک بیورو کی جانب سے چار سال تاخیر سے رپورٹ پیش کرنے پر جب ٹی این این نے خیبرپختونخوا مردم شماری کے محکمے کے ڈپٹی سنسز کمشنر سے موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کر دیا جبکہ ٹی این این ذرائع کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ مردم شماری کے حوالے سے عدالت میں کیس چل رہا ہے اور وہ تیار ہے کہ اپنے اعداد و شمار ٹھیک ثابت کرے لیکن مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ بہت مشکل اور مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔
وفاقی حکومت جب رواں سال کے اپریل 12 کو 2017 کی مردم شماری کے منظوری دے رہی تھی تو اُس وقت وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ حالیہ مردم شماری کی پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے متفقہ طور پر منظوری دے دی جبکہ سندھ نے اسکی مخالفت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ کیا گیا کہ اب 10 سال تک انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ امسال ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں 2023 کے عام انتخابات کے لئے مردم شماری کی جائے گی جس کی لاگت کا تخمینہ 23 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
مردم شماری کیا ہے؟
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک کے سابق کمشنر حبیب اللہ خٹک نے ٹی این این کو بتایا کہ بنیادی طور پر مردم شماری آبادیاتی مطالعہ ہے اور اس میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو ‘ریفرنس تاریخ’ تک زندہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس تاریخ وہ ہوتی ہے جس دن/ وقت مردم شماری شروع ہوتی ہے تو اُس سے پہلے فوت شُدہ افراد کو شامل نہیں کیا جاتا جبکہ اس وقت کے بعد پیدا شُدہ افراد کو شامل کیا جاتا ہے۔
حبیب اللہ خٹک نے اسکی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی اور انتظامی امور چلانے میں مردم شماری اہمیت کا حامل ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلی، قومی و صوبائی سول سروسز کی نشستوں، روزگار، تعلیم اور صحت کی ضروریات کا تعین کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار مردم شماری ملک کے قیام کے چار سال بعد 1951 میں ہوئی تھی۔ اُس وقت ملک کی مشرقی اور مغربی حصے کے مجموعی آبادی 7 کروڑ سے زائد تھی۔ پھر 1961 اور 1972 میں ہوئی۔ 1972 کی مردم شماری دراصل 1971 میں ہونی چاہئے تھی لیکن اُس وقت مردم شماری پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر کا شکار ہوگئی اور پھراسکے دس سال بعد 1981 میں مردم شماری کی گئی۔
1991 میں ایک بار پھر ملک کے سیاسی مسائل کی وجہ سے مردم شماری موخر ہوگئی جسکے اگلے آٹھ سال بعد 1998 مردم شماری کرائی گئی اور آخری بار20 سال بعد صوبوں اور دیگر اقوام کے تحفظات کیوجہ سے 2017 میں کرائی گئی۔