بلاگزخیبر پختونخوا

تانگے کی سواری اب کہیں بھی نظر نہیں آتی

 

کیف آفریدی

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے کلچر سے وابستہ کئی چیزیں بھی ختم ہورہی ہے پہلے زمانے میں لوگ سواری کے لیے تانگہ استمعال کرتے تھے اور لوگوں کی لوکل ٹرانسپورٹ یہی تانگہ یا گھوڑا گاڑی ہی ہوتی تھی۔ نہایت کم قیمت ، آسان سفر اور ماحول کو آلودہ نہ کرنے والی اس سواری کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتا تھا ایک وقت تھا جب پشاور کے علاقے یکہ توت میں تانگوں کا اڈہ ہوا کرتا تھا، اس سٹینڈ سے لوگ ہزار خوانی، بڈھ بیر ، باڑہ ، پشتہ خرہ، کارخانو ، یونیورسٹی روڈ ، ہشتنگری ، فردوس ، حاجی کیمپ اڈہ اور اسکے علاو بہت سی جگہوں کے لیے تانگے کے زریعے سفر کیا کرتے تھے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا تو ترقی کے نام پر ہونے والی تبدیلوں نے اس تانگے کی بھگیاں ختم کردی اور ایسا وقت بھی آگیا کہ ان تانگوں کی جگہ سی این جی رکشہ کلچر کو فروغ مل گیا اور یوں تانگہ سواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا۔ اب سی این جی رکشے تو ہر جگہ نظر آتے ہیں مگر تانگے نظر نہیں آتے، رکشے کثیر تعداد میں شہر میں نظر آتے ہیں جو کہ ہر وقت مختلف جگہوں پر رش کا باعث بھی بن رہے ہیں اور رہی سہی کسر چنگ چی رکشوں نے پوری کردی۔

گھوڑا گاڑیوں کا شادی کی تقریبات میں بھی استعمال بہت کم ہوگیا ہے۔ پہلے بارات کو گھوڑا گاڑی میں لایا جاتا تھا اب لوگ گھوڑا گاڑی کی بجائے نئے ماڈل کی گاڑیوں میں بارات لانا پسند کرتے ہیں۔

شہر کے بعد گاوں سے بھی گھوڑا گاڑی ختم ہوتی جارہی ہے، اگر چہ گھوڑا گاڑی ایک ماحول دوست او سستی سواری ہے نہ دھواں چھوڑتی ہے اور نہ انکو ایندھن درکار ہوتی ہے نا ٹائر پنکچر ہوتے ہیں اور نہ ہی بسوں او ریلوے کراسنگز میں تصادم کا شکار ہوتے ہیں۔ سخت محنت او مشقت کے باوجود تھوڑی سی گھاس کھاتے ہیں۔ گاوں میں آمدودفت کا واحد زریعہ ہی تانگہ تھا جب کھلی فضا اور گاوں کے کچے راستوں پر تانگہ چلتا تھا تو اس کو دیکھ کر ہی بندہ خوش ہوجاتا تھا۔ جب سڑکوں پر تانگے میں جتا گھوڑا اپنے پاوں سڑک کی تال سے ملا کر دھن بجاتا تھا تو یہ آواز کانوں کو بڑی بھلی محسوس ہوتی تھی تانگوں کے اڈہ سے کوچوان جب مقامی مسافروں کو لیکر نکلتے تو مختلف جگوں کے نام پکارتے تو یہ الفاظ سماعت کو کتنے اچھے لگتے تھے لیکن اب یہ الفاظ سننے کو نہیں ملتے۔

جب لوگ تانگے میں بیٹھ کر سڑکوں پر سفر کرتے تو گردونواح کے مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے۔ اس میں تین افراد اگلی اور تین پچھلی نشستوں براجمان ہوتے تھے۔ تانگوں پر رنگ وروغن ہوتا، خوش رنگ بیل بوٹے منقش ہوتے۔ اب یہ نئی نسل تو تانگے اور بگھی جیسی شاہی سواری سے لاعلم ہے، انہیں صرف کتابوں یا شاعری میں اس افسانوی سواری کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

جب ٹانگے کی سواری عام تھی تو اس وقت کاریگر بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جو اسکی سجاوٹ اور تزئین و آرائش کیا کرتے تھے، اس روزگار سے منسلک تمام ہنرمندوں نے اس سواری کے بند ہونے کے بعد دوسرا پیشہ اپنا لیا ہے۔

اب گاوں میں تانگے کا رواج ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ چنگ چی سواری نے لے لی ہے۔ چنگ چی رکشوں نے پہلی بجلی ٹانگوں پر گرائی اور چنگ چی کے آنے پر تانگے ایسے ختم ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چنگ چی کا وائرس پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔
چنگ چی رکشے جگہ تو گاڑی کی لیتے ہیں لیکن موڑ موٹر سائیکل کی طرح کاٹتے ہیں اور پیچھے آنے والی گاڑی خوش قسمتی سے کبھی کبھار نقصان سے بچ جاتی ہے وگرنہ نقصان ہی نصیب کا حصہ ٹھہرتا ہے۔
شور کی آلودگی کو کان کے راستے دماغ تک پہنچانے کا سہرا بھی اسی سواری کے سر ہے۔ تانگہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے جب تک زندگی ہے ہمیں اس ثقافت کو زندہ رکھنا چاہیے اس رویت کو دوبارہ بحال کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button