جنسی تضاد اور ہمارا معاشرہ
مریم انم
جنسی تضاد کا مطلب ہے مرد اور عورت کو الگ الگ سمجھنا۔ جنسی تضاد ایک بہت ہی نازک مسئلہ ہے جسکو مختلف لوگ مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں کچھ لوگوں کے خیال میں مرد اور عورت کو اللہ نے برابر پیدا نہیں کیا کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ایک غیر ضروری بحث ہے جو ملک کا لبرل طبقہ اپنے حقوق کے حصول کی آڑ میں ایک ڈھال کیطرح استعمال کرتا ہے۔
اصل میں جنسی تضاد کا مطلب ہے مرد اور عورت کے حقوق کی ادائیگی میں تفریق کرنا یا مرد کو عورت کی نسبت زیادہ حقوق دینا یا عورت کو مرد کی نسبت زیادہ حقوق دینا۔ میرے خیال میں جنسی تضاد کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مرد کو
نواز کر عورت کو محروم رکھنا اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھے تو یہاں زیادہ تر مرد ہی نوازے جاتے ہیں عورت کی نسبت مرد کو اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے اسکو شادی اپنی پسند سے کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے اگر لڑکا جائیداد میں اپنا حصہ مانگنا چاہے تو اسے دیا جاتا ہےجبکہ عورت اگر جائیداد میں حصہ مانگنا چاہے تو اس سے رشتہ توڑ دیا جاتا ہے یا کبھی کبھار تو مار دیا جاتا ہے۔
اس طرح بہت سے گھریلوں مسئلے ہیں، خواتین کو فیصلوں کا اختیار نہیں دیا جاتا، حق مہر کا اختیار عورت کے پاس نہیں ہوتا لیکن یہ صرف عورت کی محرومی کی بات نہیں ہے اگر ہم مغربی معاشرے کو دیکھے تو وہاں معاملہ ہمارے برعکس ہے وہاں پر مردکی نسبت عورت کو زیادہ حقوق حاصل ہے۔
اگر کسی مرد کی بیوی کسی غلط کام میں ملوث ہو مرد بیچارہ اس ڈر سے اس پہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتا کہ بیوی پولیس کو نہ بلائے۔ مرد اور عورت دونوں باہر کام کرتے ہیں واپسی پر دونوں کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں عورت کی طلاق ہونے کے بعد مرد کی آدہی جائیداد عورت کے حصے میں چلی جاتی ہیں لیکن مغرب کے مقابلے میں ہماری عورتیں زیادہ آرام دہ زندگی گزارتی ہیں کیونکہ انکے زمے گھر کی زمہ داریوں کے علاوہ باہر کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔
اگر ہمارے معاشرے میں عورت اپنے حقوق سے محروم ہے اور جنسی تضاد کا سامنا کر رہی ہے تواسکی بڑی وجہ اسلام سے دوری اور تعلیم کی کمی ہے کیونکہ اسلام نے خواتین کو وہ حقوق دیئے ہیں جو اس سے پہلے ان کو حاصل نہ تھے۔ عورت کو طلاق ہونے کے بعد مرد کی آدھی جائیداد عورت کے حصے میں چلی جاتی ہے۔
اسلام نے ہی جائیداد میں عورتوں کو حصہ دیا گھر میں عورت کو ایک معزز مقام دیا، اس پر سے آمدنی بنانے کی زمہ داری اٹھائی گئی تاکہ گھر کی زمہ داریاں بہتر انداز میں پوری کرسکے لیکن اگر وہ نوکری کرنا چاہے تو اس کو زبردستی منع نہیں کیا جاسکتا.
نبی اکرم صلہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جو عورتوں کی حقوق کے بارے میں ہیں. خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں پس انکے حقوق کا خیال رکھا کرو قیامت کے روز ان حقوق کے بارے میں پوچھا جائے گا. آپ صلہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کو کھانے کے لیے اور پہنے کیلۓ دو اور ان پرظلم نہ کرو.
آپ صلہ علیہ وسلم خود گھر کے کاموں میں اپنی عورتوں کا ھاتھ بٹھاتے کپڑے دھوتے, بکریوں کے دودھ دھوتے اپنی جوتوں اور پٹھے ھوۓ کپڑوں کی مرمت خود کرتے اور آپ صلہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے حقوق کے بارے میں بتایا کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کو بڑا کیا انکی اچھی تعلیم و تربیت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے شھادت اور درمیانی انگلی قریب ہے۔
اسی طرح بہنوں سے عزت سے پیش آنے اور انکو جائیداد میں حصہ دینے کا حکم فرمایا. اگرچہ آپ صلہ علیہ وسلم کی اپنی کوئی سگی بہن نہیں تھی لیکن جب آپ صلہ علیہ وسلم کی دودھ شریک بہن تشریف لاتی تو آپ صلہ علیہ وسلم اپنی چادر مبارک انکے کیلۓ بچھادیتے اور انتہائی عزت سے پیش آتے.
پس یہ بحث انتہائی غیر اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو حقوق حاصل نہیں ہمارے معاشرے میں تعلیم اور تربیت کی کمی اور مزہب سے دوری کی وجہ سے زیادہ تر عورتیں ان مسائل کا شکار ہیں.
ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ اسلام کی عظیم تعلیمات سے بھی روشناس کرانا چاہیے تاکہ آئندہ نسل اس تضاد کے جھگڑوں میں نہ پڑے اور مرد اور عورت دونوں مل کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکے۔ ہم تعلیم اور تربیت سے یہ سوچ بدل سکتے ہیں کیونکہ یہ صرف تقریروں اور خالی باتوں سے سوچ نہیں بدلتی اس کے لیے ایک لمبی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ہر کسی کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔