”آئس کے نشے نے مجھ سے کاروبار ہی نہیں خاندان بھی چھین لیا”
رفاقت اللہ رزڑوال
"پہلے میں گاڑیوں کی خریدو فروخت کا بڑا کاروبار کرتا تھا لیکن آئس کے نشے نے مجھ سے کاروبار بھی چھین لیا اور خاندان والوں نے بھی نفرت کرنا شروع کر دی۔”
چھتیس سالہ احمد (فرضی نام) چھ بچوں کے باپ ہیں جو گزشتہ 8 ماہ سے آئس کے نشے میں مبتلا رہے ہیں اور اب ملاکنڈ میں منشیات کے عادی افرادی کی بحالی کے مرکز میں زیرعلاج ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو کے دوران احمد نے بتایا کہ بحالی مرکز میں ان کو تین ماہ ہو چکے ہیں، اب وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں، ”اب سوچتا ہوں کہ ماضی میں، میں نہ صرف اپنی صحت اور دولت کے ساتھ کھیل چکا ہوں بلکہ خود کو اپنے خاندان کا بھی قصور وار سمجھتا ہوں۔”
کہتے ہیں کہ اُن کا گاڑیوں کا اپنا شوروم تھا، جس میں وہ روزانہ لاکھوں روپے کا کاروبار کرتے تھے لیکن آئس کی لت لگنے کے بعد ان کا پورا سرمایہ ڈوب گیا، "نشے کے بعد میں نے کاروبار چھوڑ دیا، نہ میں اپنے قرضداروں کے پاس پیسے مانگنے جاتا تھا اور نہ میں نے دوسرے کی امانتیں واپس کیں کیونکہ میں اپنے نشے میں ڈوبا رہتا تھا۔”
احمد کہتے ہیں کہ جب وہ نارمل تھے تو اُن کے بچے اُن کے بغیر ایک لحظہ بھی نہیں گزار سکتے تھے مگر اب انہیں تین ماہ تک خود سے الگ کر دیا جس کی انہیں سمجھ آ رہی ہے کہ ان کے خاندان نے ان کی جدائی کو ان کی بُری عادت پر فوقیت دی، "ماشاء اللہ اب میں نارمل ہو چکا ہوں، بس یہاں پر میرے صرف دو دن باقی ہیں، اس کے بعد کوشش کروں گا کہ گندے ماحول سے خود کو مکمل طور الگ رکھوں۔”
نشے میں مبتلا افراد کی بحالی میں نجی اداروں کا کردار
خیبر پختونخوا کے محکمہ سوشل ویلفیئر کے زیرنگرانی چلنے والا ادارہ ‘د حق آواز’ کے صوبہ بھر میں 2013 سے پانچ بحالی مراکز چل رہے ہیں۔
ادارے کے چیئرمین محمد شفیق کا کہنا ہے کہ نشئی افراد کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے بحالی کے مراکز انتہائی کم ہیں، کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں صرف 20 ہزار افراد کا علاج کیا جا سکتا ہے جبکہ باقیوں کیلئے جگہ نہیں ہے۔
‘بحال افراد دوبارہ کیوں نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں’؟ ان کے تجزیے کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ خاندان والے فوری طور پر اُن کو مصروف رکھنے کیلئے اقدامات نہیں کرتے اور بے روزگاری سے وہ چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پہلے وہ سگریٹ، پھر چرس پینا اور اس کے بعد دیگر نشے شروع کر دیتے ہیں، جبکہ دوسرا یہ کہ اکثر معمولی سی تلخی پر بحال شدہ شخص کو ہیروئنچی یا نشئی کے طعنے دیئے جاتے ہیں تو ان دونوں حالات میں وہ دوبارہ دلبرداشتہ ہو کر نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ ان منشیات میں ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل، آئس، سمربانڈ اور سکون بخش ادویات شامل ہیں جنہیںاستعمال کرنے والوں میں خواتین، نو عمر لڑکے لڑکیاں، طلبہ و طالبات اور جوان شامل ہیں۔
منشیات کے خاتمے میں متعلقہ اداروں کا کردار کتنا متاثر کُن ہے؟
خیبر پختونخوا کے ایک پولیس افسر نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر منشیات میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس، اینٹی نارکاٹکس فورس اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن روک تھام کیلئے منظم اقدامات اُٹھا رہے ہیں لیکن عدالت اُن کے ساتھ سزائیں دینے میں تعاون نہیں کر رہی ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کچھ عرصہ سے مسلسل عدالتوں سے ملزمان کی رہائی کے احکامات جاری ہونا شروع ہوئے تو ہم نے اپنی تفتیش میں خامیوں کا دوبارہ جائزہ لیا جس میں بہتری لانے اور ملزمان کو سزائیں دینے کیلئے 30، 40 فیصلہ شدہ مثلز اُٹھا لئے جن میں تمام شواہد کو مدنظر رکھ کر اگلے مثلز میں وہی قانونی نقطے رکھنے کا فیصلہ کیا، "اب ہم کیس بہترین تیار کرتے ہیں لیکن پھر بھی ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔”
"ان منظم سماج دُشمن عناصر کے خلاف پولیس اہلکار اپنی جان داؤ پر لگا دیتے ہیں اور درجنوں کلوگرام اور منوں کے حساب سے منشیات پکڑ لیتے ہیں مگر ایک چھوٹے سے نقطے پر عدالت میں ملزم کے حق میں فیصلہ آتا ہے، جس سے براہ راست بدنامی پولیس کی ہو رہی ہے”۔
اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارے آنے والی نسلوں کی حقیقی دشمن ہیں، عدالتوں سے بالکل ریلیف نہیں ملنا چاہئے تب اس قبیح عمل کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
منشیات فروشوں کو سزائیں کیوں نہیں دی جا رہی ہیں؟
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور چارسدہ بار کے سابق جنرل سیکرٹری ایڈوکیٹ عالمزیب کا ماننا ہے کہ سزائیں دینے میں عدالتیں بھی کوتاہی کر رہی ہیں لیکن عالمزیب پولیس کی تفتیش اور فرائض میں غفلت پر بھی سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ عالمزیب کا کہنا ہے کہ عدالتوں سے سزائیں اس لئے نہیں دی جاتیں کہ ملزم کے خلاف پولیس کی فائل اور شواہد مکمل نہیں ہوتے اور وہ اس لئے کہ اکثر پولیس اہلکار ایک تولہ چرس سے ایک کلوگرام بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موقع کے گواہان بھی حقیقی نہیں ہوتے، جب وہی گواہان عدالت کے سامنے کچھ عرصہ بعد پیش کئے جاتے ہیں تو وہ جرم کے واقعات بھول چکے ہوتے ہیں اور پھر عدالت میں واقعات کی اصل عکاسی نہیں کر سکتے جس پر عدالت شواہد کی غیرموجودگی میں ملزم کو ضمانت دے دیتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا موقف
پشاور میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مرکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ نشا ایک ایسی بُری عادت ہے جس کے بغیر عادی شخص کی زندگی مشکل بن جاتی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب کوئی شخص نشہ شروع کرنے لگتا ہے تو مسلسل منشیات کے استعمال سے پچھلے والی مقدار کا مزہ اُتنا نہیں ہوتا جتنا پہلے ہوا کرتا ہے، تو عادی شخص اس سے زیادہ مقدار لیتا ہے اور اس طرح وہ عادی بن جاتا ہے۔
میاں افتخار نے نشے میں مبتلا ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض افراد موروثی طور پر نشہ آور چیزوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جبکہ بعض افراد خاندانی مسائل، معاشی مشکلات اور بے روزگاری جیسے حالات سے نپٹنے کا گُر نہیں جانتے تو نشے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے اکثر بچے تنہائی کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں، جس میں والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے اور اپنی تنہائی ختم کرنے کیلئے باہر وقت گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے اکثر بچے منشیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
کیا آئس نشہ روکنے کا کوئی قانون ہے؟
گزشتہ سال اگست میں خیبر پختونخوا حکومت نے منشیات کی روک تھام کے قانون ‘خیبر پختونخوا نارکوٹیکس کنٹرول ایکٹ 2019’ میں ترمیم کر کے آئس جیسے مہلک نشے کی سزا اور جرمانے کو شامل کیا ہے۔
اس قانون کے مطابق آئس کرسٹل کی فروخت میں ملوث افراد کو سزائے موت اور استعمال کرنے والے کو سات سال تک قید کی سزا دی جائی گی جبکہ منشیات کی رقم سے جائیدادیں اور عمارتیں بنانے والوں کو 25 سال تک قید کی سزا بھی شامل ہے۔
پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد کی تعداد کتنی ہے؟
پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد کی مصدقہ معلومات تو موجود نہیں لیکن امریکی رسالے ‘فارن پالیسی’ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 لاکھ کے قریب افراد منشیات کے استعمال میں ملوث ہیں جن میں سے ہر روز 700 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، رسالے کے مطابق یہ دہشتگردی میں روزانہ کے حساب سے جانی نقصان سے زیادہ شرح اموات ہے۔ رپورٹ میں اُن افراد کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے جو شراب پیتے ہیں۔
سال 2013 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مشیات کے عادی افراد کی تعداد 67 لاکھ بتائی گئی تھی جبکہ بحالی کے اداروں میں کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس وقت ملک میں 92 لاکھ افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں جن میں بیشتر کی تعداد خیبر پختونخوا سے ہے۔