‘فاٹا انضمام تو صرف قبائیلی عوام کو مزید خوار کرنے کے لئے کیا گیا’
عبدالستار
فاٹا انضمام یا قبائیلی ایجنسیوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کے تقریباً تین سال مکمل ہونے والے ہیں لیکن قبائلی عوام ابھی تک انضمام کے ثمرات کے منتظر ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے نام پر قانون رائج تھا جس سے مقامی عوام تنگ آچکے تھے اور چاہتے تھے کہ اس قانون سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے لیکن ایف سی آر سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد ایک نئی اور اچھی نظام کے بھی خواہش مند تھے جو ابھی تک ممکن نہ ہوسکا۔
گزشتہ دنوں راقم کو سابقہ قبائیلی ایجنسی موجود ضلع باجوڑ میں ایک فاتخہ خوانی میں جانے کا موقع ملا کہ اس دوارن خیبرپختونخوا کے سابق گورنر اورباجوڑ کے تحصیل ناوگئی سے تعلق رکھنے والے انجئنیرشوکت علی خان کے ساتھ بھی فاتخہ خوانی میں ملاقات ہوئی ناوگئی اوراسکے نواحی علاقے دہشت گردی کے زیر اثر رہنے کے باوجودسابق گورنر مقامی لوگوں کے ساتھ بغیر کسی روک ٹوک کے مل رہے تھے جس کاحجرے میں موجودلوگوں کو اچھا تاثر دینے کی ایک کوشش تھی۔
اسی دوران سابقہ گورنرنے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بات کی اور ساتھ ہی کہا کہ اس وقت جو لوڈشیدنگ زیادہ ہے وہ گریڈسٹیشن میں فالٹ کی وجہ سے ہوتی ہے جس پر میں نے انجنئیر شوکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب توانضمام ہوگیا ہے بجلی بل بھی تو آپ دینگے تو انہوں نے فوراًجواب دیتے ہوئے کہا کہ کہاں کا انضمام ،انضمام تو صرف قبائیلی عوام کومزید خوار کرنے کے لئے کیا گیا اور ابھی تک مقامی لوگوں کوتکلیف دینے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں دے سکا انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتی نظام کے نام پر کچہری میں سادہ لوح قبائیلوں کو لوٹا جارہا ہے اورپانچ ہزار روپے والا کام یہاں پر لاکھوں میں ہوتا ہے قبائلی ضلعوں میں نہ تو کوئی سینئروکیل جاتا ہے اور نہ ابھی تک عدالتی نظام کو بہتر کیا جاسکا تاکہ عوام کو جلد ازجلد ریلف مل سکے جبکہ جو فیصلہ انضمام سے پہلے ایک دو دن میں ہوتا تھا اب اس پر کئی سال لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے لوگ ہمارے پاس اپنے مسلے لیکر آتے تھے اور زیادہ ترلوگوں کو ہم جانتے تھے اور انکے مسائل کا بھی ہمیں پتہ ہوتا تھا تو اسی وقت دونوں فریقین کے درمیان فیصلہ کرتا تھا لیجن اب ایسا نہیں ہے سابقہ گورنر نے کہا کہ جب ہم انضمام کی مخالفت کرتے تھے تو لوگ یہی تاثرلیتے تھے کہ اس سے خوانین کی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے اسلیئے یہ لوگ مخالف ہیں لیکن ہماری مخالفت اسی روزکی ڈر کی وجہ سے تھا کہ ایف سی آر تو ختم ہوجائیگا لیکن جس طریقے سے دوسرا نظام آئے گا اس سےغریب قبائلی عوام مزید خوار ہونگے جس کے ساتھ ہی سابقہ گورنرانجینئرشوکت نے فاتخہ خوانی کرکے رخصت لی اور موجود لوگوں میں ایک بحث چل پڑی جس میں بھاری بھاری ہر ایک نے انضمام کے بعد مسائل پرسیر گفتگو کی۔
ایک مقامی شخص نے کہا کہ ضلعی کچہری بننے کے بعد صوبے کے دوسرے ضلعوں کے کچہریوں میں موجود وکیلوں کے منشی یہاں پر بڑے وکیل بنے پھرتے ہیں اور سادہ لوگ لوگوں سے لاکھوں روپے کورٹ کچہری کے نام پیسے بٹورتے ہیں جبکہ یہاں پر فیس بھی بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سینئر وکلا ء نہ ہونے کی وجہ سے جونئیروکیل اور منشیوں کا راج ہے اور اپنے من مانے فیس لوگوں سے لیتے ہیں ایک دوسرے مقامی شخص سعیدجان نے کہا کہ انضمام کے بعدپولیس کا نظام پنجاب سے بھی بدترہے اورکسی بھی دفترمیں بغیر پیسوں کے کوئی ملتا بھی نہیں جبکہ پولیس اہلکارتو سرکاری دفتر کے دروازے پر رشوت کا مطالبہ کرتے نظر آئیں گے لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے فاتخہ خوانی میں موجودمحکمہ ایجوکیشن کے ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ بہت سے محکموں کی دفاتر ابھی قائم نہیں ہے جس سے عوام کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ خواتین کے مسائل بدستور قائم ہے اور روایات اور حالات کی وجہ سے کچہریوں میں خاتون وکلاء کا بھی فقدان ہے اس موقع پر انضمام کے بعد قبائیلوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے اس پرحجرے میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور آخر میں اختتام اس بات پر ہوئی کہ انضمام کے بعدقبائیلی عوام نظام میں بہتری کے منتظر ہیں۔
آج سے تین سال پہلے یعنی مئی 2018 کو 25 ویں آئینی ترمیم بل کے ذریعے فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا پارلیمنٹ ہاؤس میں فاٹا انضمام کا بل پاس کرنے میں جمیعت علمائے اسلام ف نے فاٹا انضمام کی مکمل مخالفت کی جبکہ پختونخواملی عوامی پارٹی نے قبائلی اضلاع کو نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انضمام کی مخالفت کی تھی جبکہ باقی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی پارٹیوں نے انضمام کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد سے سات سابقہ قبائلی ایجنسیاں اور چھ ایف آرز خیبرپختونخوا میں شامل ہوگئے۔