بلاگزخیبر پختونخوا

کورونا وائرس نے مزدور کی زندگی کو مزید اجیرن کردیا ہے

کیف آفریدی

ٓاج کے اس دور میں مزدور کے لئے رزق حلال کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ پہلے تو مزدوری بہت مشکل سے ملتی اور پھر اگر مل بھی جائے تو مزدوری کے دوران مزدور کو سخت رویوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے بہت ہی کم لوگ ہیں جو مزدوروں کو انکےجائز حقوق دیتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ یکم مئی بطور یوم مزدور منایا جاتا ہے اس دن منانے کا مقصد مزدوروں کے جائز حقوق کے حوالے عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے مگر اس دن بھی مزدور، کسان اور محنت کش دنیا و مافیا سے بے خبر محنت و مشقت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یوم مزدور منانے کا اغاز کب ہو ؟ ٓآئیے تاریخ کے اس پہلو کی طرف چلتے ہیں۔
یکم مئی امریکا کے شہر شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں منائی جاتی ہے جب انہوں نے 1886ء میں اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھی اس دن مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے ان کے پرامن جلوس پر فائرنگ کر کے سینکڑوں کو ہلاک اور زخمی کر دیاتھا جبکہ درجنوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، لیکن یہ تحریک ختم ہونے کی بجائے دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی جو آج بھی جاری ہے۔

اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کا مقصد مزدور دشمن قوانین کی منسوخی، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے، تنخواہوں و اجرت میں اضافے سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان بڑے بڑے تقریبات اور اجتماعات سے مزدور طبقہ بلکل ناواقف ہوتا ہے "کہ سال میں ایک دن ایسا بھی آتاہے جو ان کیلئے خاص ہے، لیکن اسی دن یہی مزدور صبح مختلف چوکوں پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتے ہیں ، دن میں مزدوری کرتے ہیں تو رات کو ان کا چولہا جلتا ہے۔ اسی حوالے سے مشہور شاعر افضل خان نے کیا خوب کہا ہے کہ

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئ کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

 

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ‘پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز 1973 ء میں سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا۔
مزدوروں کی ان تمام مشکلات میں کرونا وائرس کی وبا نے رہی سی کسر پوری کردی۔ صبح ہوتے ہی پشاور کے مختلف بازاروں میں دیہاڑی دار مزدور طبقہ حلال رزق کے حصول کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ شاید ان کو آج کہیں سے مزدوری مل جائے لیکن کورونا وائرس نے ان سے مزدوری بھی چھین لی ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں محدود کردی گئ ہیں اور ہفتے میں دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو مکمل چھٹی رہتی ہے۔ اب اس حال میں مزدور طبقہ کہاں جائے؟ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ کورونا ایک مہلک مرض ہے لیکن ہم اپنے دوزخ کا آگ کہاں بجھائے۔

خیبرپختونخوا میں مزدور کی اجرت چھ سو روپے ہیں جبکے اج کل کی اس مہنگائی کے دور میں چھ سو روپے میں ایک مزدور اپنے گھر کا خرچہ کیسے پورا کریں؟؟؟ دیہاڑی دار مزدور اکثر کرایہ کے مکان میں زندگی بسر کرتے ہیں اب اگر ہم اندازہ لگائے تو چھہ سو روپے کی اجرت مہینہ اٹھارہ ہزار بنتے ہیں تو اس اٹھارہ ہزار میں ایک مزدور اپنے گھر کا کرایہ ادا کریں یا اپنے خاندان کا پیٹ پال لیں۔ اسکے ساتھ یوٹیلیٹی بلز کا بوجھ ایک الگ کہانی ہے ہر مہینے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافے نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور اگر مزدور کا بیٹا بیمار ہو گا تو انکے لئے دوائی اور ڈاکٹر کی فیس بھی انکے بس کی بات نہیں کیونکہ دوائیوں کی قیمت بھی اج کل اسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم دلانا والدین کا فرض ہے لیکن ایک مزدور کے لیے یہ فرض ادا کرنا اس مہنگائی اور بےروزگاری کے دور میں کسی خطرناک چیلنج سے کم نہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کے حالات میں بہتری کے لئے اقدامات کریں اور ان کی اجرت و تنخواہوں میں مناسب اضافے کا اعلان کریں۔ آج مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روز گار دینا وقت کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور رہنماؤں کو قومی سطح پر ایک مضبوط فیڈریشن قائم کرنی چاہیے تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button