خیبر پختونخواقبائلی اضلاع

قبائلی ضلع خیبر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون کے خلاف قتل کا مقدمہ درج

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور: ضلع خیبر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قتل کے جرم میں مبینہ طور پر ملوث خاتون اور اسکے بیٹے کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا لیکن خاتون ملزمہ کو پکڑنے کیلئے لیڈیز کانسٹیبلز کی عدم موجودگی سے پولیس کشمکش کا شکار ہے۔
سماجی کارکن ایف آئی آر کی اندراج کو خوش آئیند سمجھتے ہیں اوراسے قانون کی بلاتفریق نفاذ قرار دیا۔
خیبرپختونخواہ کے قبائلی ضلع خیبر کے تھانہ جمرود کے محرر عزیز الرحمن نے ٹی این این کو بتایا کہ 26 اپریل کو کابل خان ولد گل رحمان سکنہ جمرود نے پولیس کو بتایا کہ بچوں کی لڑائی پر اُنکے چچازاد بھائی کی بیوی مسماۃ (ج) ولد رحمان گل اور اسکا 12 سالہ بیٹا فضل کریم اُنکے گھر میں زبردستی گھس کر میری بیوی کے اوپر بھاری پتھروں کے وار شروع کر دئے جس سے میری بیوی مسماۃ زرسانگہ موقع پر جانبحق ہوگئی۔
عزیرالرحمن نے بتایا کہ دونوں ملزمان کے خلاف قتل کے مقدمے دفعہ 302/34 میں نامزد کئے گئے ہیں، خاتون اور اسکے بیٹے کی گرفتاری کے سوال پر بتایا کہ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
انکے مطابق "ملزمہ کا بیٹا مفرور ہے جبکہ خاتون کی گرفتاری کیلئے ہمارے پاس خواتین پولیس موجود نہیں تو اُنکی گرفتاری ہمارے لئے ایک چیلنج ہے لیکن یہ مسئلہ متعلقہ ڈی ایس یا ڈی پی او حل کرے گا”۔

خیبرپختونخواہ کی قبائلی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ ہے جو کسی خاتون کے خلاف تھانہ میں درج کی گئی جسے انسانی حقوق کی کارکن اس عمل کو قانون اور جنس کی بلاتفریق کاروائی سمجھتے ہیں لیکن سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا قبائلی اضلاع کے تھانہ جات میں ملزمان خواتین کی گرفتاری یا اس سے تفتیش کا کوئی موضوع نظام موجود ہے؟
اس حوالے خواتین کی حقوق پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم تکڑہ قابلے خویندے کی رکن نادیہ خان نے قانون کی عملداری قابل ستائش اقدام قرار دیے کر بتایا کہ بہت کم عرصہ ہوا ہے کہ قبائلی اضلاع میں پاکستان کا قانون نافذ کیا گیا ہے اسلئے یہاں کے عوام وہی جرگہ نظام کے سوچ رکھتے ہیں جہاں پر اُس وقت بھی خواتین کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام قانون کی عملداری سے واقف ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنا قانون کی عملداری ہے مگر سوال اُٹھایا کہ تھانے میں خواتین کے ساتھ ڈیلنگ کرنے کیلئے کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں؟
نادیہ خان کا کہنا ہے کہ خاتون کے خلاف مقدمے کی اندراج کچھ لوگ اپنے لئے باعت شرم تصور کرینگے لیکن یہ ایک قانونی عمل ہے اور دنیا بھر میں یہی قانونی طریقہ کار رائج ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button