کے پی اسمبلی نے فیس بُک مونٹائزیشن کے حق میں قرارداد منظور کرلی
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک کے انتظامیہ سے مونٹائزیشن کیلئے بات کرے تاکہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے نوجوان بھی فیس بُک سے پیسے کما سکیں۔
حکومت کی اس اقدام کو سوشل میڈیا کے صارفین نے سراہا اور کہا ہے کہ ریگولیشن کے نام پر پابندیوں کی بجائے صارفین کے مفادات کی خاطر اقدامات اُٹھانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
خیبرپختونخوا میں حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے رُکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ بنگش نے پیر کو اسمبلی میں فیس بُک مونٹائزیشین کیلئے ایک قرارداد پیش کردیا جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فیس بُک انتظامیہ سے بات کرے تاکہ صارفین اور بالخصوص نوجوان اسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے پیسے کمائیں تاکہ اسکا مزید مثبت استعمال شروع ہوسکیں۔
قرارداد خیبرپختونخوا کی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے، قرارداد میں یاد دلایا گیا ہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پاکستان میں فیس بُک انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کی تھی، قرارداد کے مطابق اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فیس بُک پاکستان میں مونٹائزیشن آن کریگی۔
ضیاء اللہ بنگش نے ٹی این این کو بتایا کہ متعلقہ قرارداد صوبائی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہوئی جس کا مقصد نوجوانوں کو اقتصادی طور پر مستحکم بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھ ماہ قبل اُنکی فیس بُک انتظامیہ سے بات ہوئی تھی جس میں انتظامیہ نے کچھ مسائل کی نشاندہی کرکے قومی اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کیلئے سپیکر اسد قیصر سے بات کرینگے تاکہ وہ قومی اسمبلی سے ایک ایسی قانون منظور کروائیں تاکہ ماضی کی طرح بیک قلم جنبش سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بند نہ ہوجائیں کیونکہ مستقبل میں اسکی اثرات نوجوانوں کی معاش پر پڑیگی۔
انہوں نے کہا کہ فیس بُک مونٹائزیشن کی پالیسی کے مطابق ہر پیج کیلئے 10 ہزار لائکس اور 30 ہزار منٹس واچ ہاور ہے، "اگر یہ موناٹائزیشن آن ہوگئی تو نوجوانوں کی معاش بہتر ہوسکتی ہے”۔
پاکستان میں فیس بُک صارفین کی تعداد
سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھنے اور اُسکی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے سٹیٹیسٹا کے جنوری 2021 تک جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں پاکستان میں 4 کروڑ صارفین فیس بُک استعمال کر رہے ہیں جس کا درجہ 11 نمبر پر دکھایا گیا جبکہ پہلے نمبر پر ہندوستان جہاں پر 32 اور دوسرے نمبر پر امریکہ میں 19 کروڑ صارفین فیس بُک استعمال کرتے ہیں۔
قرارداد پر صارفین کا ردعمل
صوبے میں فیس بُک صارفین پاس کردہ قرارداد کو احسن اقدام سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فیس بُک موناٹائز ہوگیا تو اسکے ساتھ اُنکے معاشی اور اقتصادی حالات بہتر ہوجائینگے۔
سوشل میڈیا کا ایک فعال صارف الف خان شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ اپنے فیس بک پیج پر 9 لاکھ کے قریب فالورز رکھتے ہیں جن میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے مرد اور خواتین شامل ہیں۔
الف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ اپنے فیس بُک کے ذریعے غریب، بے بس بیواؤں اور گھرانوں کے مالی امداد کے لئے مہم چلا رہے ہیں جس کے ذریعے بیرون اور اندرون ملک کے مخیر حضرات اُنکے ساتھ مالی تعاؤن کر رہے ہیں جسکی وجہ سے اُنکی فیس بُک بیج پر فالورز اور ویوورز بھی زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر فیس بُک کے ذریعے انہیں پیسے ملنا شروع ہوجائے تو وہ معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے۔ شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ "میرا ایک یوٹیوب چینل بھی ہے، میں اُس سے پچاس ہزار تک ماہانہ کماتا ہوں لیکن فیس بک پر میرے ویورز اس سے کہی زیادہ ہے تو شائد مجھے ایک لاکھ روپے تک ملے”۔
خیبرپختونخوا میں غیر سرکاری تنظیم بلیو وینز کے سربراہ اور سماجی رابطو کی ویب سائٹس کے سرگرم صارف قمر نسیم نے خیبرپختونخواہ اسمبلی کی قرارداد کو خوش آئیند قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام بہت پہلے اُٹھانا چاہئے تھے مگر اب بھی دیر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان میں بیشتر لوگ فیس بُک کا استعمال کرتے ہیں۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں اکثر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ریگولیشن کے نام پر پابندیوں کیلئے مختلف قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن ریگولیشن کے قوانین کے ساتھ عوام کے معاشی اور اقتصادی فوائد دلانے کیلئے بھی اقدامات اُٹھانے چاہئے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر کب اور کیوں پابندیاں لگائی گئی ہے؟
پاکستان میں اس سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹک ٹاک، یوٹیوب، فیس بُک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ عرصہ کیلئے پابندیاں لگائی ہے مگر پھر دوبارہ بحالی کی جاتی ہے، اس سے قبل میں پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر سماجی رابطی کی ویب سائٹ ٹک ٹاک پر مبینہ فحاشی پھیلانے کے نام پر پابندی لگائی گئی تھی اور اسی طرح وفاقی حکومت نے سال 2012 میں مذہب کے توہین سے بچاؤ کے نام پر یوٹیوب کو تین سالوں کیلئے بند کر دیا تھا جسے بعد میں کھول دیا گیا۔
حال ہی میں کالعدم ہونے والی تنظیم تحریک لبیک نے جب ملک میں پرتشدد مظاہرے شروع کئے تو حکومت نے جائے مظاہروں اور دیگر مخصوص علاقوں پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کردئے جبکہ جمعہ کو نماز ظہر سے پہلے ملک بھر میں چار گھنٹے کیلئے سماجی رابطوں کے ویب سائٹس بھی بند کردئے۔
حکومتی اقدامات
گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ڈیویس میں فیس بُک کے چیف اپریٹنگ افیسر شیرل سینڈبرگ کے ساتھ ملاقات کی تھی ملاقات میں عمران خان نے پاکستان میں کاروباری طبقے کو فیس بُک کے ذریعے پروموٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔