چائے اور ”غونزاخے”، شانگلہ کی ایک مشہور سوغات
طارق عزیز
خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی روایتی سوغات تیار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح شانگلہ میں بھی مختلف روایتی سوغات کا رواج آج بھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔
ان روایتی سوغات میں شانگلہ کا مخصوص کیک، حلوہ جس کو پرانے لوگ ”درپیش” بھی کے نام سے بھی جانتے ہیں، ”ککوڑی” یا ”گلاگولی” وغیرہ شامل ہیں، کیک کے بعد سب سے زیادہ پسند کی جانے والی سوغات میں ”غونزاخے” بھی شامل ہے۔ بعض علاقوں میں اسے کھجور بھی کہا جاتا ہے لیکن روایتی نام غونزاخے ہی ہے جسے عموماً چائے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور عموماً عید اور شادیوں کے مواقع پر لوگ گھروں میں تیار کرتے ہیں۔
عید کے موقع پر والدین کا مختلف قسم کی سوغات اپنی بیٹی کے گھر بھیجنا ایک رواج ہے جن میں غونزاخے بھی ضرور شامل ہوتا ہے۔
یہ روایتی سوغات گھر میں کیسے تیار کی جاتی ہے، ایک مقامی خاتون حفصہ نے ٹی این این کو بتایا کہ سب سے پہلے چینی کا شیرا تیار کیا جاتا ہے، چینی کی جگہ گڑ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، پھر آٹے میں انڈے اور گھی ملا کر مکس کیا جاتا ہے، اس کے بعد چھوٹے چھوٹے بال بنا کر اور بعد میں اس سےگول روٹی کی طرح چھوٹے پیس بنایا جاتا ہے۔
حفصہ کے مطابق اسے آخری شکل دینے کا طریقہ کار مختلف علاقوں میں مختلف ہے، بعض جگہوں پر انہیں محض چھوٹی سی روٹی کی شکل میں تیار کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں غونزاخے مخصوص انداز میں لپیٹ کر بنایا جاتا ہے اور پھر کڑاہی میں گرم تیل میں پکایا جاتا ہے جبکہ اس کا ذائقہ بہتر کرنے اور مزید کرسپی بنانے کیلئے اس میں کھوپرا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک ان کا استعال زیادہ تھا لیکن اب اس کے استعمال میں کمی آ چکی ہے، جس کی وجہ اس کا مشکل طریقہ کار اور نئی نسل کی عدم واقفیت ہے۔
سردار واجد کے مطابق غونزاخے شانگلہ کی ایک منفرد سوغات ہے لیکن اس کا استعمال کم ہونے کی وجوہات ایک سے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق اب چونکہ بازار میں بغیر کسی محنت کے تیار چیزیں مل جاتی ہیں تو لوگ انہیں ترجیح دیتے ہیں جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ پہلے زیادہ تر گھروں میں دیسی گھی اور دیسی انڈے موجود ہوتے تھے جس کی وجہ سے اس کا ذائقہ بھی بڑا منفرد ہوا کرتا تھا اب ان کی کمی کی وجہ سے اس طرف دھیاں نہیں دیا جا رہا ہے۔
سردار واجد کہتے ہیں کہ اب بھی ان کے ہاں خاص مواقع پر غونزاخے تیار کئے جاتے ہیں لیکن پہلے کی طرح عام نہیں، ”ذیابیطس کے مریضوں میں اضافہ بھی غونزاخے کے استعمال میں کمی کی ایک وجہ بن چکا ہے کیونکہ اس میں چینی کا استعمال کیا جاتا ہے جو شوگر/ذیابیطس کے مریضوں کیلئے صحیح نہیں ہے”
غونزاخے اور دیگر روایتی سوغات کے مقابلے میں نئی نسل فاسٹ فوڈ کی طرف توجہ دیتی ہے جو کہ صحت کے لئے صحیح نہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر محمد یونس کہتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ، جسے عموماً جنک فوڈ بھی کہا جاتا ہے، صحیح طرح پکے نہیں ہوتے بلکہ انہیں فرائی کیا جاتا ہے، اور فرائی کئے گئے کھانے انسانی جسم میں جو تبدیلیاں لاتے ہیں ان میں موٹاپا اور بلڈ پریشر کا بڑھنا شامل ہے۔
محمد یونس کہتے ہیں کہ اب بھی روایتی سوغات کا استعمال موجود ہے لیکن اس طرح باقاعدگی کے ساتھ تیار نہیں کی جاتی جس طرح کچھ عرصہ پہلے تک تھا، ”فاسٹ فوڈ تو نہیں البتہ فاست فوڈ اور بیکری میں تیار کی جانے والی چیزوں نے ان کی جگہ ضرور لی ہے۔