انتہاپسند تنظیموں اور پاکستانی حکومتوں کے درمیان معاہدوں پر ایک نظر
رفاقت اللہ رزڑوال
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے منگل کو کہا ہے کہ آج حکومت پاکستان فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد پیش کرے گی۔
انہوں نے اپنی ٹویٹر پر ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں لیا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے آج قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے ایک روز قبل قومی اسمبلی کا اجلاس 22 اپریل کے دو بجے تک ملتوی کیا گیا اور آج (منگل) قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان نہیں ہوا ہے۔
شیخ رشید نے دعوی کیا ہے کہ تحریک لبیک نے ملک بھر سے احتجاجی مظاہرے ختم کرنے کی حامی بھر لی ہے اور اُن کے ساتھ مذاکرت جاری رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت تحریک لبیک کے کارکنوں پر بنائے گئے مقدمات واپس لئے جائیں گے اور شیڈول فورتھ میں شامل کئے گئے افراد کے نام بھی نکالے جائیں گے اور اس کی تفصیل آج شام یا کل دوپہر ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بتائی جائے گی۔
واضح رہے کہ حال ہی میں مذہبی کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا مطالبہ کیا ہے کہ فرانس کی جانب سے پیغمبر اسلامﷺ کی توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور سرکاری سطح پر اُن کے بنائے گئے مصنوعات سے بائیکاٹ کیا جائے۔
اس مطالبے کے حق میں ٹی ایل پی نے ملک بھر میں گزشتہ چھ دن سے پرتشدد مظاہرے شروع کئے جن میں چار پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 40 پولیس موبائیل گاڑیاں اور شخصی گاڑیاں جل گئیں۔ حکومت پاکستان نے جلاؤ گھیراؤ کے بعد ٹی ایل پی پر پابندی لگائی پھر اس کے اثاثے منجمد کئے اور کل رات اُن کے ساتھ تیسرے راؤنڈ کے مذاکرات کئے۔
درایں اثناء لاہور میں تحریک لبیک نے ڈی ایس پی سمیت 16 پولیس اور رینجر اہلکاروں کو اغوا کیا، ان کے اوپر تشدد کیا گیا اور پھر مذاکرات کے دوسرے راونڈ کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔
گزشتہ روز مذہبی جماعتوں کی سٹرائیک کال سے مارکیٹیں جُزوی طور پر بند رہیں جس کی وجہ سے پیر کی رات کو وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ قوم سے خطاب کیا۔
وزیراعظم نے اپنی خطاب میں کہا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اس سے ملک کو نقصان ہو گا۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا فرانس کی سفیر کو ملک بدر کرنے سے توہین آمیز اشاعتوں کا سلسلہ رُک جائے گا یا کوئی ضمانت ہے کہ آئیندہ ایسا کوئی نہیں کرے گا؟
وزیراعظم نے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پچاس مسلمان ممالک مل کر کے یہ کہیں کہ اگر کسی ملک نے اس طرح قدم اٹھایا تو ہم ان کے ساتھ تجارت سے بائیکاٹ کریں گے اور کہا اس مہم کیلئے وہ خود اس کی ذمہ داری لیتا ہے۔
وزیراعظم کے بیان اور حکومتوں کا مذہبی جماعتوں کے ساتھ معاہدوں پر سیاسی تجزیہ کاروں کی نظر
کالعدم جماعت تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات اور وزیراعظم کے خطاب پر ملک کے سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والی سینئر خاتون سیاستدان بشریٰ گوہر نے کہا کہ گزشتہ رات عمران خان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اُس وقت خود کو بلیک میل کرنے کی اجازت دی جب فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کیلئے ٹی ایل پی سے معاہدہ کیا۔
بشریٰ گوہر نے کہا کہ 24 گھنٹے بھی گزرے کہ ایک طرف عمران خان نے اپنی خطاب میں ملک سے سفیر نکالنے کے نقصانات بیان کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اُن کے وزیرداخلہ آج پارلیمنٹ میں سفیر کو ملک بدر کرنے کیلئے قرارداد جمع کر رہے ہیں۔
خاتون سیاستدان بشریٰ نے موجودہ حکومت کی پالیسی سازی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک انتہاپسند مذہبی تنظیم پر پابندی لگائی گئی اور پھر اُس کے جرائم پیشہ افراد کو رہا کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بے اختیار اور فیصلہ سازی پر اُس کا کوئی کنٹرول نہیں۔
انہوں نے انتہاپسند اور اعتدال پسند جماعتوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں حکومتیں اُن لوگوں کے سامنے جُھک رہی ہیں جو ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ پشتونوں کے آئینی حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے پرامن کارکنوں کو سگنین غداری کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔
بشریٰ گوہر نے کہا "اگر ریاست اپنی خودکُش پالیسوں پر نظرثانی نہ کرے تو میں مستقبل میں بھی ریاست کو اپنی تذویراتی اثاثوں (جہادی تنظیموں) کے سامنے سرنڈر ہوتے دیکھ رہے ہوں۔”
ریاست پاکستان کی جانب سے مذہبی جماعتوں کے ساتھ معاہدوں کی تاریخ
نوے کی دہائی سے اب تک سیاسی حکومتوں کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ جب بھی ایک ایسا بحران سامنے آیا جس میں مذہب کا عنصر شامل ہو تو حکومتوں نے وقت گزارنے کیلئے عارضی معاہدے کئے ہیں۔
پاکستان کے سابقہ خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اُس وقت مذہبی جماعت تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے ساتھ معاہدہ کیا جب اُن کا ایک ممبرصوبائی اسمبلی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں قتل ہوا تھا اور پھر نواز شریف نے دوسرا معاہدہ کیا اور اُسی معاہدے کے تحت انہیں ملاکنڈ میں شرعی نظام نافذ کرنے کی اجازت دی گئی جہاں پر عدالتوں میں ججوں کی جگہ علما کو بٹھایا گیا تھا۔
تیسرا معاہدہ عوامی نیشنل پارٹی نے اسی مذہبی تنظیم کے ساتھ کیا اور اس کے بعد نفاذ شریعت کے لئے صوبائی اسمبلی سے بل بھی پاس کرایا۔
اس کے بعد 2013 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے معاہدہ کیا اور طے پایا گیا کہ اگلے نوے دن میں عام انتخابات کرائے جائیں گے۔
اور اب حالیہ کالعدم تنظیم تحریک لبیک کے ساتھ نوازشریف اور اب عمران خان کے دور حکومت میں بالترتیب دو دو معاہدے کئے گئے۔