جنسی زیادتی کے شکار بچے کون سے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
"وہ شخص میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے زبردستی ایک ویران گھر میں لے گیا جہاں پر میرے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی،جس کی وجہ سے میری پھسلیوں پر شدید دباو آیا ہے”
یہ بات جنسی تشدد سے متاثرہ آٹھ سالہ بچے نے روتے ہوئے ٹی این این سے کو بتائی۔ وہ ایک ایسے گھر میں رہ رہا ہے جہاں پر گھر میں دو کچے کمرے ہیں اور ایک کمرے میں یہی بچہ چارپائی کے بستر پر لیٹا ہوا ہے اور اس کے سرہانے چپس،ٹافیاں اور کھلونے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ رواں سال کے جنوری میں ایک ایسے بچے کے ساتھ پیش آیا جب وہ شام کو وضو کرکے مدرسہ پڑھنے کیلئے نکل گیا تو گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر راستے میں ایک ویران گھر کے قریب تاک میں بیٹھے ملزم نے بچے کو پکڑ لیا۔
بچے کے مطابق جب وہ جان چُھڑانے کیلئے چیخیں مار رہا تھا تو ملزم نے اُنکی آواز دبانے کیلئے انکے منہ کو ہاتھ سے ڈھانپ دیا۔
واقعے کے بعد بچے کے دادا کو معلومات ہونے پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں پسے بچے کی میڈیکل رپورٹ مثبت آئی اور بچے کو آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
بچوں سے زیادتیوں کے حوالے سے بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے غیرسرکاری تنظیم ساحل نے ‘2020 ظالمانہ اعداد و شمار” کے عنوان کے ساتھ ایک تازہ سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2019 کے مقابلے 2020بچوں کے ساتھ مختلف قسم کے زیادتیوں میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں پورے ملک کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے کُل 84 قومی اور علاقائی اخبارات کی جانچ پڑتال کی گئی۔
رپورٹ میں بچوں سے جنسی زیادتی، اغوا برائے تاوان، گمشدگی اور کم عمری کی شادیوں کا جائزہ لیا گیا جس میں مجموعی طور پر اس قسم کے 2960 جرائم واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں 1510 (51 فیصد ) لڑکیاں اور 1450 (49 فیصد ) لڑکے شامل ہیں جبکہ رپورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر آٹھ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پیش آنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بدفعلی کے 985، زیادتی کے 787، زیادتی کے بعد ویڈیوز بنانے کے 80، اغوا کے 834، بچوں کی گمشدگی کے 345 اور کم عمری میں شادی کے 119 واقعات شامل ہیں۔
سال 2020 کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ بیشتر واقعات میں اپنے جاننے والے شامل ہوتے ہیں، رپورٹ میں 1780 واقعات میں جاننے والے، 109 میں پیشہ ور افراد، 91 واقعات میں اپنے ہی خاندان کے افراد ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ 468 میں انجانے لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔
ساحل کی رپورٹ ‘2020 ظالمانہ اعداد و شمار’ میں سال 2020 میں پولیس کے ساتھ 87 فیصد واقعات رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جبکہ 19 کے واقعات رجسٹرڈ کرنے سے پولیس نے انکار کیا ہے، 21 واقعات پولیس کے پاس درج نہیں ہوئے جبکہ 333 واقعات کی اندراج کیلئے پولیس کو معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی زیادہ شرح پنجاب جبکہ سب سے کم واقعات بلوچستان صوبہ سے ریکارڈ کیا گیا ہے ، رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب مٰں 58 فیصد، صوبہ سندھ سے 29 فیصد، خیبرپختونخوا سے 7 فیصد، اسلام اباد 3 فیصد، جبکہ 18 واقعات بلوچستان، 4 آزاد کشمیر اور 4 گلگت بلتستان سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
ساحل کے ایگریکٹیو ڈائریکٹر منیزہ بانو نے رپورٹ کے جائزہ میں کہا ہے کہ سال 2020 میں بچوں کی اغوائیگی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اس میں نہ صرف بچوں کو اغوا کیا گیا ہے بلکہ تشدد کے بعد انہیں قتل بھی کیا گیا ہے۔
بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کا رپورٹ پر موقف
خیبرپختونخوا میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کارکن عمران ٹکر نے رپورٹ کو خوش آئند قراد دے کر کہا کہ اس قسم کی تحقیقاتی رپورٹ سے مسئلے کی حساسیت اور اُسکے لئے قانون سازی کی طرف رجحان کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔
عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ جاری کردہ رپورٹ میں صرف علاقائی اور ملکی سطح پر اخبارات کا جائزہ لیا گیا لیکن بعض اوقات دیہاتی علاقوں کے واقعات لوکل اخبارات میں شائع ہوتے ہیں جبکہ بیشتر واقعات پولیس کو رپورٹ ہوتے ہیں لیکن اخبارات میں شائع نہیں ہوتے جسکی ڈیٹا سے ساحل محروم رہتا ہے۔
"پہلے جب بچوں کے ساتھ کوئی واقعہ رپورٹ ہوجاتا تو عوام او حکومت اس قسم کے واقعات ماننے سے انکاری نظر آتے تھے مگر اب اخبارات کی رپورٹنگ سے عوامی شعور نظر آرہی ہے”
عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ خیبرپختوںخوا میں گزشتہ سال پولیس کی جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق 50 فیصد لڑکوں اور 50 فیصد لڑکیوں سے جنسی واقعات کے 323 واقعات سامنے آئے ہیں جو سال 2019 کی نسبت 75 فیصد اضافہ ہے، انکے مطابق سال 2019 میں چار جبکہ 2020 میں 7 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام واقعات میں پولیس نے 465 افراد کو گرفتار کرلیا ہے لیکن انکے مطابق تفتیش اور عدالتی کاروائی تسلی بخش دکھائی نہیں دے رہی ہے اور ملزمان اسانی سے بری ہوجاتے ہیں۔
عمران نے بتایا کہ واقعات ہوتے رہتے ہیں اُنکے مقدمات بھی درج ہوتے ہیں لیکن واقعے کے چند دن بعد متاثرہ بچے کی نفسیاتی اور ذہنی بحالی کیلئے اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے اس پر حکومت کا ایک مربوط نظام کا موجود ہونا ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں شعور اور اگاہی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
جنسی تشدد یا استحصال کے بعد بچوں پر کونسے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
پشاور میں نفسیاتی امراض کے علاج کے ہسپتال کے سربراہ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ عمومی طور پر بچے حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور اچانک رونما ہونے والے حادثات یا اُنکے جنسی استحصال سے اُن پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے متاثرہ بچوں کے حوالے سے بتایا کہ بیشتر اوقات ان بچوں میں خود کو قصوروار ہونے کا احساس ہوتا ہے جسکی وجہ سے وہ ہر وقت غصے، ڈر او خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور نہ ہی زندگی بھر کسی پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
"میرے پاس کئی ایسے کیسز آ رہے ہیں جن میں واقعے کے کئی سالوں بعد مریض اپنے آپکو قصور وار سمجھ رہا ہے اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں خود کو اُس صدمے سے نکلنے کا طریقہ نہیں آتا”
ماہر نفسیات میاں افتحار حسین نے متاثرہ بچوں کی نفسیاتی علامات کے بارے میں بتایا کہ ایک تو متاثرہ بچوں کی معمول کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے اور خود کو الگ رہنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف اچانک اُنکے عادات و اطوار معمول سے ہٹ کر تبدیل ہوجاتے ہیں اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے درد یا خیالات کا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان نازک حالات میں والدین چاہئے کہ وہ بغیر کسی جھجک کے اپنے بچوں کو گُڈ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتائے، اُنکے مطابق بچوں کو سمجھانا چاہئے کہ آپ کو کس کے ساتھ بیٹھنا چاہئے یا بدن کے کن حصوں کو چُھوا جاسکتا ہے۔
ماہر نفسیات نے بتایا کہ جب کسی بچے میں ایسے علامات ظاہر ہوجائے تو وہ فوری طور پر انہیں کسی ماہر نفسیات سے چیک کروائیں اور پھر چیک اپ کے بعد والدین مسلسل اپنے بچوں کا ساتھ دیں، اکیلا نہ چھوڑے، اُس کا اعتماد بڑھانے کی کوشش کریں اور بچوں کو اپنی تکلیف اور سوچ کے اظہار کا موقع دیا جائے اور اُنکے ساتھ کُھلی دل سے بات چیت کرے۔
میاں افتحارحسین نے کہا کہ بچوں کی اعتماد بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ "پیش آنے والے واقعے میں اُنکا کوئی قصور نہیں، آپ بچہ ہو، اس پر تمھارا کوئی اختیار نہیں تھا”۔
بچوں کی بحالی کیلئے خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 کیا کہتا ہے؟
یہ قانون سال 2010 میں خیبرپختونخوا حکومت نے پاس کیا تھا جسکے مطابق ہر ضلع میں بچوں کی حفاظت، متاثرہ بچے اور خاندان کی نفسیاتی بحالی کیلئے ایک یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ قانون کہتا ہے کہ بچوں کی بحالی کی زمہ داری ضلعی سطح پر سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کی ہوگی ، جائزہ لینے بعد متاثرہ بچے اور خاندان کو تحفظ ، خوراک، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کریں گے۔
قانون میں ضلعی انتظامیہ کو پابند بنایا گیا کہ وہ متاثرہ بچے کے خاندان کے گھر اور سکولوں کا دورہ کرینگے اور وہاں پر موجود افراد کو چائلڈ اییوزنگ کی روک تھام کے حوالے سے آگاہ کرینگے۔
قانون میں پشاور ہائی کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر ضلع میں متاثرہ بچوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے چائلڈ کورٹس کا قیام کرینگے جس کے تحت 9 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید نے سوات، کوہاٹ، بنوں اور ڈی آئی خان میں چار نئے چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کا افتتاح کر دیا گیا ہے جس سے صوبے میں مجموعی طور پر چائلڈ کورٹس کی تعداد آٹھ ہوگئی۔
قانون کے آرٹیکل 24 (1) میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی اخبار یا الیکٹرانک میڈیا متاثرہ بچے کا نام، پتہ، تصویر اور شناخت نہ ظاہر کرنے کی پابند ہوگی۔ قانون کے آرٹیکل 53 کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث پانے والے مجرمان کو سات سے چودہ سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں جب کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو اس کے لیے زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے اور ان بچوں میں خود اعتمادی کی کمی آجاتی ہے جبکہ معاشرے کے لوگوں کے منفی رویوں کی وجہ سے بھی وہ ہر وقت ذہنی اذیت میں رہتے ہیں۔ یہی کچھ اوپر بیان کئے گئے واقعے میں متاثرہ ہونے والے بچے کے ساتھ بھی ہوا۔
متاثرہ بچے کے داد کے مطابق پولیس سٹیشن میں ملزم کے خلاف بچے سے زیادتی کا مقدمہ درج ہوا لیکن رات کو ملزم کے خاندان والوں نے بندوق کے زور پر دباو ڈال کر انہیں صلح کرنے پر مجبور کیا جسکے بعد معاشرتی منفی رویوں اور طعنوں سے بچنے کیلئے بچے کو پندرہ کلومیٹر دور اپنے ماموں کے گھر پر رہنے اور پڑھنے کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور اب وہی پر گھر والوں سے دور رہے گا۔