خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پاکستان میں تین سالوں کے دوران قتل کیے گئے آدھے سے زیادہ خواجہ سراؤں کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور میں خواجہ سراؤں نے اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور حملوں کے خلاف احتجاج کیا، دوسری جانب خواجہ سراؤں کے حقوق پرکام کرنے والے ایک ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں پچھلے تین سالوں میں قتل ہونے والے 120 میں سے 65 خواجہ سراؤں کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔

خواجہ سراوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم فورم فار ڈیگنیٹی انشی ایٹیو (ایف ڈی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے قتل ہونے والے 55 خواجہ سراؤں کا تعلق ملک کے دیگر صوبوں سے ہیں۔
ایف ڈی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عظمٰی یعقوب نے ٹی این این کو بتایا کہ اُنکی حالیہ سروے گزشتہ تین سالوں کے اخبارات سے لئے گئے رپورٹس پر مبنی ہے جن میں خواجہ سراوں کے ساتھ معاشرتی رویوں، جنسی زیادتیوں، دھمکیوں اور تشدد کا جائزہ لیا گیا ہے۔
"یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ جب کوئی خواجہ سرا کسی سے بھیک مانگتا ہے تو ہم اُن کی امداد کرتے ہیں لیکن جب کوئی خواجہ سرا مردوں یا خواتین کی طرح اپنی تعلیم، صحت، آزاد زندگی گزارنا چاہے یا دیگر حقوق مانگے تو اُنکو مختلف طریقوں سے زدوکوب کیا جاتا ہے”.

جاری کردہ رپورٹ کے حوالے سے خواجہ سرا کیا کہتے ہیں؟

خیبرپختونخوا میں خواجہ سراوں کی تنظیم ٹرانس جینڈر الائینس کی صدرفرزانہ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ چھ سالوں میں 78 خواجہ سراوں کو قتل جبکہ سینکڑوں کو زخمی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں خواجہ سراوں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں، اگر کوئی خواجہ سرا اپنی شکایت متعلقہ تھانہ لے جائے تو صرف سفید کاغذکی حد تک اسکی شکایت درج کی جاتی ہے یا اگر ایف آئی آر کاٹی بھی جائے تو کمزور دفعات کے تحت ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔
"رواں سال کے دوران خواجہ سراوں کے 6 ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں خواجہ سراوں کو ننگا کیا گیا اور سر مُنڈوا نے کے ویڈیوز بنائی گئی ہیں جن کی زیادہ تر وجوہات دوستی نہ کرنے، بھتہ نہ دینے یا دوسرے افراد کے ساتھ اُٹھک بیٹھک بتائے جاتے ہیں”۔


ٹرانس جینڈر فرزانہ نے مزید بتایا کہ جنوری میں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خواجہ سرا کی زبردستی میں بنائی گئی ننگی ویڈیومشتہر کروادی گئی جس کے نتیجے میں انہیں اپنے بھائیوں نے گاوں بُلایا اور قتل کر دیا۔
انہوں نے ایک متاثرہ خواجہ سرا کا حوالہ دے کر کہا کہ گزشتہ ہفتے پشاور کے گل بہار نمبر 4میں ایک خواجہ سرا کیساتھ جنسی زیادتی ہوئی اور ملزمان کے خلاف ایف آئی بھی درج ہوئی، جب پولیس نے ملزمان گرفتار کرلئے تو ملزمان کے دوستوں نے متاثرہ خواجہ سرا کو کیس واپس لینے کی دھمکی دی او کہا کہ آپکے چھوٹے بھائی کو اغوا کرینگے جس پر انہوں نے اپنا کیس واپس لے لیا۔
فرزانہ کا کہنا ہے کہ جب وہ تھانے میں مقدمہ درج کرنے جاتے ہیں تو اکثر پولیس اہلکار اُنہیں یہی تجویز دیتے ہیں کہ ‘آپ ناچ گانے کا کام چھوڑ دیں پھر آپ محفوظ رہیں گے’،
انہوں نے کہا کہ آئے روز تشدد اور جبر کے واقعات سے کئی خواجہ سرا اپنے بالاخانوں پر فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں لیکن حکومت بھی اُنکا نہیں پوچھتی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سال 2016-17 سے اب تک ہر سال بجٹ میں اُنکے فلاح و بہبود کے لئے 20کروڑ روپے فنڈر مختص کرتی ہے مگر آج تک اُنکی برادری کی فلاح پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں ہوا۔
خواجہ سراوں کے ساتھ جسمانی و جنسی تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں اُنکے سر کے بال بھی منُڈوانے کے واقعات سامنے آئے ہیں، گزشتہ ماہ پشاور کے نینا نامی خواجہ سرا نے پشاور فقیرآباد پولیس کو بتایا کہ رات کے ایک بجے کے قریب جب وہ محفل موسیقی سے واپس آرہے تھے تو انکو تین افراد نے اغوا کیا اور لے گئے، ان پر جسمانی تشدد کے بعداُنکے سر کے بال بھی مُنڈوا دئے۔
پشاور کی رہائشی35 سالہ خواجہ سرا نینا نے کہا کہ جب وہ محفل موسیقی سے فارغ ہوکر اپنے ڈھیرے پر آ رہے تھے تو راستے میں تین ملزمان نے اُنکا راستہ روکا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔
ملزمان نے پہلے اُنکے اوپر لاتوں گھونسوں اور تھپڑوں کے ذریعے تشدد کیا اور پھر انکے سر کے بال منڈوا دئے، انہوں نے کہا کہ ملزمان کو رنج تھا کہ کیوں وہ اپنے خواجہ سرا دوستوں کی تحفظ کرتا ہے۔
"پہلے میرے کافی لمبے بال تھے لیکن سر منڈوانے کے بعد میں ٹوپی پہن رہی ہوں لیکن اب بغیر بالوں کے مجھے کوئی پروگراموں پے نہیں بُلاتا جسکی وجہ سے میں فاقوں پر مجبور ہو چکی ہوں”۔
نینا نے اپنی درج کردہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کے بارے میں بتایا کہ پولیس نے مقدمے کے اندراج کے بعد انہیں گرفتار کر لیا لیکن کمزور تفتیش کی وجہ سے آج وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

رپورٹ پر سماجی تنظیموں کا ردعمل

خیبرپختونخوا میں خواجہ سراوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں ایف ڈی آئی کی جاری کردہ اعداد وشمار کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سینکڑوں مختلف مقدمات میں نامزد کردہ ملزمان میں سے آج تک کسی کو بھی قانون کے مطابق سزا نہیں ملی ہے۔
خیبرپختونخوا کے سول سوسائٹی نیٹ ورک کے رُکن تیمور کمال کا کہنا ہے کہ 2018 میں وفاقی سطح پر خواجہ سراوں کے حقوق کی تحفظ کیلے قانون بنایا گیا مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی آج تک اُس قانون کا دائرہ اختیار صوبوں تک نہیں پھیلایا گیا ہے۔
تیمور نے خواجہ سراوں کے ساتھ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بتایا کہ ایف ڈی آئی کی رپورٹ میں خواجہ سراوں کی قتل ہونے کی تعداد اسلئے زیادہ بتائی گئی ہے کہ صوبے میں خواجہ سراوں کے متعلق صحافتی رپورٹنگ دیگر صوبوں کی نسبت تیز ہے۔

خواجہ سراوں کے حقوق اور تحفظ کا قانون ٹرانسجنڈر رائیٹ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟

یہ قانون سال 2018 میں پاکستان کے پارلیمنٹ سے منظور ہوا جسکے مطابق خواجہ سراوں کو دیگر شہریوں کی طرح برابر شہری تصور کیا جائے گا۔
قانون میں خواجہ سراوں کو ڈرائیونگ لائیسنس اور پاسپورٹ کی فراہمی کے ساتھ قومی شناختی کارڈ میں اپنی جنس کی تبدیلی کا حق دیا گیا ہے۔ خواجہ سراوں کو ہراساں کرنااور تعلیم سے محروم رکھنا جرم قرار دیا گیا ہے۔قانون میں حکومت کو پابند بنایا گیا ہے کہ جیلوں اور ہسپتالوں میں خواجہ سراوں کیلئے الگ کمرے مختص کئے جائینگے اور خواجہ سراوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے افراد کو 6سال قید اور پچاس ہزار وپے جرمانہ کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ کا موقف

خیبرپختونخوا میں پاکستان پیپلزپارٹی سے خواتین کی مخصوص نشست پرمنتخب ممبر صوبائی اسمبلی اور سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ کی چئرپرسن نگہت اورکزئی نے وفاق سے منظور شدہ قانون کو ہر لحاظ سے جامع قرار دے کر کہا کہ مذکورہ قانون میں خواجہ سراوں کی حقوق اور انکے تحفظ کیلئے تمام تر اقدامات اُٹھاگئے ہیں مگر بدقسمتی سے تاحال یہی قانون صوبوں میں لاگوں نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کئی بار خیبرپختونخوا اسمبلی میں قانون کو صوبے میں نافذ کرنے کی درخواست کی ہے مگر حکومت غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
نگہت اورکزئی نے کہا کہ خواجہ سرا معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ ہے جنہیں سب سے پہلے خاندان کے افراد اپنی حقوق سے محروم رکھتے ہیں پھر معاشرتی رویوں کی وجہ سے اُنکا استحصال ہوتا ہے تو ان حالات میں ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو وفاقی قانون کا دائرہ اختیار صوبوں تک پھیلایا جائے یا نئی قانون سازی کی جائے۔
سال 2017 کی مردم شماری میں جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں 10ہزار سے زیادہ خواجہ سرا زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں تقریباً 900 افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button