‘شفقت انکل مجھے پڑھنے دو’
رفاقت اللہ رزڑوال
پورے ملک سمیت خیبرپختونخوا کے 16 اضلاع میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کر دیئے گئے ہیں لیکن صوبے کے ان اضلاع کے پرائیویٹ سکولز مالکان نے تعلیمی اداروں کی بندش کو بچوں کے تاریک مستقبل سے جوڑ دیا ہے۔
صوبہ بھر کے نجی سکولوں کی تنظیم ‘پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک’ (پن) کے مالکان، اساتذہ اور سینکڑوں طلبا نے سکولوں کے کھولنے کے حوالے سے بدھ کو ضلع چارسده ميں ‘تعلیم بچاؤ کیمپ’ کے نام سے مظاہرہ کیا۔
مظاہرے میں جمعیت علمائے اسلام، قومی وطن پارٹٰی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور دوکانداروں تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
پن کے صوبائی نائب صدر جاوید خان نے یکم اپریل سے تعلیمی اداروں کے کھولنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ملک بھر میں صرف دو مقامات پر کرونا سے بچاو کے حوالے سے سرکاری ہدایات یا سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل درآمد کیا جاتا ہے جن میں فوجی چاؤنیاں اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔
ٹی این کے ساتھ بات چیت کے دوراب جاوید خان نے دعویٰ کیا کہ سکولوں کی انتظامیہ حکومت کی ہدایات کے مطابق میں بچوں کیلئے ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال اور درمیانی فاصلے کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
تاہم مظاہرے کے دوران شرکا نے ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال یقینی بنایا تھا مگر ایس او پیز میں طے کردہ چھ فٹ کے فاصلے کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
جاوید خان نے نجی تعلیمی اداروں کی انتظام سنبھالنے کے سرکاری ادارے پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی کا حوالہ دے کر کہا کہ اس وقت خیبرپختونخوا میں ساڑھے نو ہزار نجی تعلیمی ادارے ہیں جن میں مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ اساتذہ برسر روزگار ہیں جبکہ 40 لاکھ کے قریب بچے زیر تعلیم ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ 2020 سے اب تک مالی وسائل کی عدم دستیابی سے 1800 کے قریب ادارے بند ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں اساتذہ کی روزگار اور بچوں کی تعلیم داو پر لگ گئی۔
مظاہرے میں موجود بچوں نے ‘شفقت انکل مجھے پڑھنے دو’ کے نعرے لگائیں اور ہاتھوں میں اُٹھائے گئے بینرز پر ‘تعلیمی اداروں کو باعزت طریقے سے چلائیں گے ورنہ بند کردیں گے’ کی تحریریں درج تھیں۔
مظاہرے میں مختلف نجی سکولوں کے استانیوں اور خواتین پرنسپلز نے بھی شرکت کی، نجی سکول کی خاتون پرنسپل شکیلہ گوہر نے کہا کہ گزشتہ سال جب لاک ڈاون ختم ہوا اور تعلیمی ادارے کھولے گئے تو پریپ سے لیکر پرائمری لیول تک کے بچے اپنے نصاب کا بیشتر حصہ بھول چکے تھے جسکے لئے دوبارہ بچوں کو وہی سبق پڑھانے لگے۔
"لاک ڈاون کے بعد بچوں کے اوپر ذہنی دباو زیادہ محسوس کیا ہے، ایک تو انہیں پُرانا نصاب یاد کروانا پڑتا تھا جبکہ دوسری طرف امتحانات کو مدنظر رکھ کر نصاب کے نئے اسباق بھی یاد کرنے ہیں جس سے بچے ذہنی دباو کا شکار ہوتے ہیں”۔
مظاہرے کے شرکا نے مطالبہ کیا ہے کہ کوویڈ-19 میں روزگار سے فارغ اساتذہ اور کرائے کے سکولوں کو احساس پروگرام کے تحت ایڈجسٹ کیا جائے۔
سکولوں کے کھولنے کے حوالے سے طبی ماہرین کی رائے
گزشتہ ماہ کی 31 تاریخ کو خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور نے تحقیقی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں 25 فیصد بچوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ضلع صوابی کے 243 پانچ سال سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں کے نمونے لئے گئے تھے جسکا دورانیہ تین ماہ یعنی جنوری 2021 سے مارچ 2021 پر محیط تھا۔
رپورٹ کے تحقیق کار ڈاکٹر یاسر نے ٹی این این کو بتایا کہ ٹیسٹ کئے گئے 25 فیصد میں 23 فیصد بچوں میں آئی جی جی اینٹی باڈیز جو گزشتہ چھ ماہ کے دوران کرونا وائرس کی تصدیق کرتا ہے جبکہ 2 فیصد بچوں میں آئی جی ایم جو گزشتہ ایک یا دو ہفتوں کے دوران وائرس کی تصدیق کرتا ہے معلوم ہوا ہے۔
جبکہ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں میں کرونا وائرس کی شرح 8 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ان میں زیادہ مقدار ایسے بچوں کی ہے جن میں کرونا کے علامات نہیں پائے گئے ہیں۔
جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہی وائرس کسی بھی عمر کے بچے کو متاثر کرسکتا ہے جبکہ تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے دس سال سے کم عمر کے بچوں میں وائرس کا انکشاف ہوا ہے جس کی بڑوں میں منتقل ہونے کی شرح کم بتائی گئی ہے۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کے ہسپتال چارسدہ کے کوویڈ-19 کے فوکل پرسن ڈاکٹر فیروز شاہ نے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کی تائید کی اور کہا کہ کرونا کی موجودہ وائرس گزشتہ وائرس سے زیادہ خطرناک ہے جس کا واحد حل ایک دوسرے سے چھ فٹ (دو گز) کا فاصلہ رکھنا، ماسک اور سینیٹائزرز کا استعمال، ہرگھنٹہ بعد صابن سے 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھونا اور ویکسینشن کرانا ہے۔
ڈاکٹر فیروز شاہ نے کہا کہ بچوں کی امیون سسٹم بوڑھوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے لیکن بچے وائرس کے پھیلاؤ میں اپنا رول بآسانی سے ادا کرسکتے ہیں جو باہر سے لیکر اپنے والدین یا گھر کے کسی دوسرے فرد کو متاثر کرسکتے ہیں۔
سماجی اجتماعات پر خیبرپختونخوا حکومت کا موقف
اسسٹنٹ کمشنر چارسدہ عدنان جمیل نے نجی سکولوں کی مالکان کی یکم اپریل سے سکولوں کے کھلنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اجتماعات پر پابندی اور ایس او پیز کا نفاذ صرف ایک خاص ضلع کیلئے نہیں بلکہ یہ پورے ملک کیلئے ہیں اور اس کا نفاذ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ گزشتہ دو دن سے پرائیویٹ سکول کے تنظیموں کو مذکرات کے ذریعے اس بات پر قائل کر رہے ہیں کہ تعلیم سے زیادہ بچوں کی زندگی قیمتی ہے لیکن اگر کوئی سرکاری احکامات کے خلاف ورزی کرے تو اُنکے خلاف ‘خیبرپختونخوا ایپیڈیمک کنٹرول اینڈ ایمرجنسی ریلیف ایکٹ، 2020 کے تحت کاروائی کی جائیگی جن میں سکولوں کو سیل بھی کیا جاتا ہے اور جرمانہ بھی لگ سکتا ہے۔
عدنان جمیل نے کہا کہ سماجی اجتماعات کو روکنے کیلئے شادی ہالوں اور آوٹ ڈور تقریبات کرنے والوں کو نوٹسسز جاری کئے ہیں، ‘اگر کوئی حکومتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتا تو ضرور قانون کے مطابق کاروائی ہوگی’۔
دو روز قبل وزیراعلی خیبر پختونخوا کے زیر صدارت صوبائی ٹاسک فورس برائے انسداد کرونا کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے کے سرکاری دفاتر کے 50 فیصد عملے کو کم کرنے، آوٹ ڈور ان ڈور ہر قسم کی تقریبات و اجتماعات پر پابندی ، 5 فیصد یا اس سے زیادہ کیسز آنے والے اضلاع میں تعلیمی ادارے بند کرنے، ہفتے میں دو دن بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند رکھنے اور وبا سے زیادہ متاثرہ اضلاع کے ہسپتالوں میں 200 بیڈز کو یقینی بنایا جائے گا۔
سرکاری پورٹل کے مطابق ملک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 14530 ہوگئی ہے اور مجموعی کیسز 6 لاکھ 72931 تک جاپہنچے ہیں جب کہ فعال کیسز کی تعداد 53127 ہے۔
اس کے علاوہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 2148 مریض کورونا سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں جس کے بعد مجموعی طور پر صحتیاب ہونے والوں کی تعداد 605274 ہوگئی ہے۔