کلاس میں کوئی میرا مذاق اڑاتا تو صرف ایک لڑکی میرے حق میں کھڑی ہوتی
خالدہ نیاز
‘رات کے وقت میں پروگرامز میں ڈانس کیا کرتا تھا اور دن کے وقت ڈانس کے پیسوں سے اپنا ذوق تعلم پورا کرتا کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے’
یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا ریحان جانی کا جنہوں نے پاکستان سٹڈی میں ماسٹر کررکھا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ شروع سے ہی انکو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ دل لگا کرپڑھتے تھے جس کی وجہ سے ہمیشہ انہوں نے اچھے گریڈز حاصل کیے ہیں۔
‘میں نے میٹرک میں سکول ٹاپ کیا تھا، اس کے بعد میرے والد صاحب فوت ہوگئے تو میری مشکلات بڑھ گئی کیونکہ گھر میں پھر کوئی کمانے والا نہیں رہا اور یوں ناچاہتے ہوئے بھی ڈانس محفلوں کی طرف آگیا’ ریحان جانی نے بتایا۔
ریحان جانی کا کہنا ہے کہ انکی دو بہنیں ہیں اور ایک والدہ ہے اور والد کی وفات کے بعد انہوں نے گھر والوں کی ہر طرح سے مدد کی لیکن کچھ عرصہ قبل گھر والوں نے معاشرے کی منفی رویہ کی وجہ سے گھر سے نکال دیا اور اب وہ خواجہ سراوں کے ساتھ اپنے شب و روز گزار رہے ہیں۔
ریحان جانی نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد ان کے لیے معاشرے کا سامنا کرنا بہت مشکل تھا لیکن انہوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا سوچا اور لوگوں کے درمیان انے کا فیصلہ کیا، اپنی تعلیم جاری رکھی اور گھر کو ڈانس کے پیسوں سے چلانے لگا۔ ریحان جانی کا کہنا ہے کہ انکی والدہ کبھی کبھی ان سے بات کرتی ہے، اور ملتی بھی ہے۔
گھر والوں نے کیوں نکالا؟
گھر والوں نے انکو کیوں نکالا اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ریحان جانی نے کہا کہ ‘میں گھر بھی آتا، تو لوگ گلی محلے میں بات کرتے ہر کوئی طنز سے دیکھتا رشتہ دار دھمکیاں دیتے تھے کہ مار دیں گے، میں نے کہا ہمارے اخراجات کا ذمہ لے لیں، میں گھر ہی میں بیٹھ جاوں گا لیکن وہ نہیں مانتے تھے یہ ظلم اور انسانیت کے برعکس عمل ہے’
انہوں نے بتایا کہ وہ مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، اب بھی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن کرونا کی وجہ سے حالات اس قابل نہیں کہ میں مالی طور پر خود کو سٹیبل رکھ سکوں اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ بس کھانا پینا ہو جاتا ہے۔
ریحان جانی کے مطابق میڈیکل انکے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا، انکو اپنے آپ پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ آسانی سے میڈیل انٹری ٹیسٹ کیلئر کر لیتا لیکن مالی مسائل کی وجہ سے نہ کر سکا۔ ‘میں ماسٹر اور بی ایس سی کی فیسز میں مشکلات سے دوچار رہا تو میڈیکل کیسے کر لیتا’
وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوں
میں اگے تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں پیسے نہیں ہے اور پاکستان کی حکومت کو اپ اندھا ہی سمجھ لے، جن افراد کو تعاون کی ضرورت ہوتی ہے یہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور نہ ہی ان لوگوں کو مواقع فراہم کرتے ہیں جن کے پاس ڈگریا ہوتی ہے۔
‘یونیورسٹی میں میری کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ واسطہ نہ آئے، میں خود کو بالکل کوور کر کے جاتی جاتی، باہر لڑکیاں ہنستی تھی کلاس میں لڑکے ہنستے تھے،
ڈیپارٹمنٹ میں کسی نے میرے احساسات کو نہیں سمجھا وہ میرے ساتھ بیٹھ بھی جاتے تو بس ہنس لیتے مذاق اڑاتے اور چلے جاتے’ ریحان نے بتایا۔
ریحان کا کہنا ہے کہ کلاس میں ماریہ نام لڑکی انکو سپورٹ کرتی تھی اور وہ بات بھی طریقے سے کرتی تھی اور ایک نایاب بھی صحیح طریقے سے پیش آتی تھی۔
‘میں کلاس میں زندہ لاش بنا ہوتا تھا نہ ہی کسی کو اچھا اور نہ برا کہنے کی ہمت کر سکتا تھا، غموں کی ایک داستان اپنے دل میں چھپا کر رکھی ہے’
خواجہ سراؤں کو کوئی قبول نہیں کرتا
ریحان نے بتایا کہ خواجہ سراوں کو معاشرہ قبول نہیں کرتا، نہ ہی گھر والے قبول کرتے ہیں، نہ ہی تعلیمی اداروں میں کوئی عزت دیتا ہے نہ ہی دوسری جگہ کوئی عزت سے پیش آتا ہے ‘ کلاس میں جب کوئی میرا مذاق اڑاتا تو میں رونے لگ جاتا اور کلاس سے باہر نکلتا لیکن پھر بھی وہ ہنستے تھے ، میں نے ان تمام حالات کا سامنا کیا ، میں نے سب برداشت کیا، میں لوگوں کی وجہ سے یہاں آگیا لیکن اب بھی لوگ مجھے نہیں چھوڑتے تو مہیں کیا کروں اور کہاں جاوں’
خواجہ سراؤں کے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ریحان جانی نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے انکو بہت تنگ کیا جاتا ہے پولیس کو انکے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کرنا چاہیئے، ہرجگہ خواجہ سراوں کو مسئلے ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئے کیونکہ معاشرے کے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آنے سے خواجہ سراؤں کے مسائل میں بھی کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ سراوں کو تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں بھی سہولیات دینی چاہیئے۔
ریحان جانی نے کہا کہ خواجہ سرا بھی انسان ہوتے ہیں صرف تفریح دینے کے لیے اور سیکس ورکرز نہیں ہے انکو بھی انسان سمجھاجائے اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔