”تمغہ شجاعت کیلئے شکریہ لیکن میرے والد کے قاتل کب گرفتار ہوں گے؟”
مزمل خان داوڑ
شہید صحافی حیات اللہ خان داوڑ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان تحصیل میرعلی گاوں ہرمز میں 13 دسمبر 1976 کو پیدا ہوئے تھے۔ حیات اللہ داوڑ نے تعلیم کا آغاز آبائی گاوں ہرمز میں واقع گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ہرمز سے کیا، 1986 میں میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ بڑھانے کے لئے سی ٹی کالج حیدر آباد میں داخلہ لیا جہاں سے ایف ایس سی مکمل کر کے وزیرستان واپس آئے اور گورنمنٹ ڈگری کالج میرانشاہ میں بی ایس سی می داخلہ لیا جس کے بعد انہوں نے بنوں کالج سے اکنامکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
حیات اللہ شہید کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
5 دسمبر 2005 کو نامعلوم افراد نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہیں گورنمنٹ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کالج کے سامنے سے اغوا کر لیا جہاں وہ طلبہ اختجاج کی کوریج کے لئے آئے ہوئے تھے۔
وہ علاقہ کے معروف صحافی تھے، لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انہیں کیوں اور کس نے اٹھایا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر کوئی ان کے گھر والوں کو تسلی دیتا رہا، پورے 6 مہینے بیت گئے لیکن ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں چلا، پھر اچانک 16 جون 2006 کو تحصیل میرعلی گاؤں خوشحالی طوری خیل کے قریب زنجیروں میں جکڑی ہوئی ان کی لاش برآمد ہوئی۔
حیات اللہ داوڑ قبائلی اضلاع کے وہ واحد صحافی تھے جنہوں نے امریکی ڈرون میزائل کی فوٹو بنا کر اخبار میں خبر لگائی تھی، اس سے قبل کسی کے علم میں نہیں تھا کہ یہ میزائل دراصل امریکی ڈرون حملے ہیں۔
ایک دن ایک اور واقعہ حیات اللہ کے گھر والوں کے ساتھ پیش آیا جب مرحوم کی بیوی گھر میں اچانک دھماکے کی نذر ہو گئیں۔
حیات اللہ خان داوڑ کے اغوا اور شہادت پر ملک بھر میں صحافیوں کے احتجاجی مظاہروں کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے بھی شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت پاکستان نے تین الگ الگ انکوائری کمیشن قائم کیے:
1 پشاور ہائی کورٹ کے جج محمد رضا خان کی سربراہی میں، دوسرا پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے جبکہ تیسرا انکوائری کمیشن فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے قائم کیا گیا تھا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں صحافی حیات اللہ کے چھوٹے بیٹے فیصل حیات خان داوڑ نے بتایا کہ چونکہ اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف ہمارا باپ ہم سے جدا ہوا تو دوسری جانب ہماری ماں بھی ہم سے جدا ہوئی، ہم مالی طور پر بھی بہت کمزور تھے، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا بہت مشکل تھا لیکن آج اس مقام پر پہنچنے میں ہمارے چچا احسان داوڑ نے بہت قربانی دی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر ڈٹ کر ہمارے لئے مقابلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے تمعہ شجاعت ایوارڈ ہمارے باپ کی کامیابی اور قاتل کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سولہ سال بعد بھی قاتل کا کوئی سراغ نہ مل سکا، فیصل حیات نے پاکستانی اداروں سے انصاف مانگنے کی اپیل کی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران صحافی حیات اللہ کے چھوٹے بھائی احسان داوڑ کا کہنا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی اور ریاست کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ”لیکن جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا تب تک ہم پاکستان کے تمام اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں ضرور انصاف ملے گا۔
شہید صحافی حیات اللہ خان داوڑ کی شہادت کے 14 سال بعد یعنی پچھلے سال صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے انہیں تمغہ شجاعت دینے کا اعلان کیا گیا۔ 23 مارچ 2021 کو یہ ایوارڈ ان کے بڑے بیٹے کامران حیات داوڑ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے وصول کیا جس پر صحافتی تنظیموں اور صحافیوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔