‘ٹک ٹاک بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اصلاحات کی ضرورت ہے’
رفاقت اللہ رزڑوال
‘ٹیکنالوجی یا ایپلیکیشن پر پابندی فحاشی اور بے حیائی روکنے کا مستقل حل نہیں ہے اگر ٹک ٹاک کو بند کیا جائے تو دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہی عمل دُہرایا جائے گا’
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل سیف اللہ محب کاکا خیل نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی اے ٹک ٹاک کے اتھارٹیز سے بات کرکے نئے اصلاحات متعارف کروائیں۔
انہوں نے فیصلے کو خوش آئیند، اسلامی روایات اور پختون کلچر کے عین مطابق قرار دیا اور کہا کہ سماعت کے دوران وہ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایپ پر مستقل پابندی لگانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اتھارٹیز کو حکم دیا کہ وہ حکومتی سطح پر ایپ کے مالکان سے بات کرے تاکہ فحش اور غیر ضررری مواد کو روکنے کیلئے پالیسی بنائیں۔
یاد رہے پشاور ہائی کے چیف جسٹس، جسٹس قیصر رشید نے جمعرات کے روز مختصر فیصلے میں ٹک ٹاک ایپلیکیشن بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ معزز عدالت نے بتایا کہ ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہے یہ ہمارے معاشرے کو قابل قبول نہیں ہے، معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے اس کو فوری طورپر بند کیا جائے۔
پشاور ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی وکیل سارہ علی نے ٹی این این کو بتایا کہ انکی درخواست میں نوجوانوں کو اسلامی و آئینی قوانین کے نیچے زندگی گزارنے، اُنکی زندگی کی تحفظ اور فحاشی و عریانی سے بچنے کے نکات شامل تھے۔
سارہ علی نے بتایا کہ معزز عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ٹک ٹاک ایپلیکیشن بند کرنے سے ان کو نقصان ہوگا؟ تو جواب میں بتایا گیا کہ ہم نے ٹک ٹاک کے عہدیداروں کو درخواست دی ہے لیکن ابھی مثبت جواب نہیں آیا۔
عدالت نے بتایا کہ جب تک ٹک ٹاک کے عہدیدار آپ کی درخواست پر عمل نہیں کرتے, غیر اخلاقی مواد روکنے کے لئے آپ کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اس وقت تک ٹک ٹاک بند کیا جائے۔
چارسدہ کی رہائشی 14 سالہ اُسامہ سخی نے جس کے ٹک ٹاک پر تقریباً 1 کروڑ 12 لاکھ فالوورز ہیں کہا کہ ٹک ٹاک بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ اصلاحات کرنا وقت کی ضرورت ہے، یہ پروکسی ایپس کے ذریعے بھی چلتی ہے پھر اُس کے ساتھ کیا کرینگے۔
"کل رات جب میں نے ٹک ٹاک کھولی تو آپریٹ نہیں ہو رہا تھا، میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ عدالت نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
اسامہ نے کہا کہ اُنکا خاندان موسیقی کے فن سے وابستگی رکھتا ہے اور وہ خود بھی ایک گائیک ہے مگر جب انہیں فارغ وقت ملتا تھا تو اپنے ویوورز اور خود کو ویڈیوز کے ذریعے محظوظ کرتے تھے۔
"ٹک ٹاک بند کرنے پر اس حد تک خوش ہوں کہ کچھ فحش اور لاپرواہ لوگوں کا مواد رُک جائے گا مگر وہ پراکیس ایپس کے ذریعے وہی حرکتیں کرتے ہیں”۔
آزادی اظہار رائے اور صحافیوں کی حقوق کی تحفظ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کے نمائندے اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ تاحال پاکستان میں فحاشی اور حیا کی تعریف مکمل طور پر واضح نہیں ہے، "سب سے پہلے فحاشی اور بے حیائی کی تعریف کرنی پڑی گی کہ کون کونسے عوامل اس زمرے میں آتے ہیں”، اُنکا کہنا ہے کہ مسائل کا حل ٹیکنالوجی پر پابندی لگانا نہیں بلکہ سرکار کو اس بات کا پابند کرنا ہے کہ وہ اصلاحات کرے۔
"میرا خیال ہے کہ مذکورہ عدالتی فیصلہ خوش آئیند نہیں ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں تحقیق، ذہانت اور قدرتی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے، نوجوانوں کی تفریح اور اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، تو یہ نوجوان کہاں جائیں گے”؟
انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک میں ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور وقت کا تقاضہ ہے کہ دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کیلئے پابندیوں کی بجائے ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے ٹک ٹاک ایپ بند کیا گیا تھا جنہوں نے موقف اپنایا تھا کہ عوام کی طرف سے ایپ پر فحاشی اور قابل اعتراض مواد پھیلانے کی شکایات موصول ہوئے ہیں مگر بعد میں یہی پابندی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم کی تھی۔
ٹک ٹاک ہمسایہ ملک چائنہ کی ایک سوشل میڈیا ایپ ہے جسکے ذریعے لوگ مختصر ویڈیوز، مختلف موسیقی پر ڈبنگ کرکے نشر کر رہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں دو کروڑ کے قریب لوگ ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہیں جبکہ دُنیا بھر میں یہی ایپلیکیشن دو ارب یوزرز نے اپنے موبائیل فونز میں ڈاون لوڈ کیا ہے۔