چارسدہ کی شہلا گھر کے اندر لڑکی، باہر لڑکا
رفاقت اللہ رزڑوال
"خاتون ہونے کے باوجود میں نے اُس دن سے محنت مزدوری شروع کی جب گاوں میں ایک شخص نے میرے والد کو بیٹا نہ ہونے کا طعنہ دے کر کہا کہ آپکے تو بیٹے نہیں اتنی محنت کس لئے کر رہے ہو تو میں نے جواب دیا کہ میں ان کا بیٹا ہوں”
ان خیالات کا اظہار عزم اور ہمت سے لیس خیبرپختونخوا ضلع چارسدہ کی 23 سالہ شہلا نامی خاتون نے کیا جو گھر کے باہر سلیم کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
شہلا نے بتایا وہ پانچ بہنیں ہیں، انہیں پالنے کیلئے والد ضعیف بدن رکھنے کے باوجود کھیتوں میں ہل چلاتے تھے تاکہ انکا گھرانہ عزت اور خوشی کی زندگی جئے، وہ بھی اپنے والد کے ساتھ کبھی کبھار کھیتوں پر کام کرنے کیلئے جایا کرتی تھی۔
شہلا نے کہا’ میرے والد کے دوست انہیں بیٹا نہ ہونے کے طعنے بھی دیتے اور یہ بات مجھے ناگوار گزرتی ایک دن میں نے والد سے کہا کہ آج کے بعد میں بھی کھیتوں پر محنت مزدوری کرونگی کیونکہ ایسا کوئی کام نہیں جو مرد کرسکتے ہیں اور خواتین نہیں، اُس دن کے بعد میں نے باہر محنت مزدوری شروع کی اور والد سب کو مجھے سلیم کے نام سے متعارف کروانے لگے اس دن سے میں نے سلیم نام کے ساتھ مردوں والی بھیس بھی اختیار کرلی’
شہلا کا کہنا ہے کہ انہوں نے مردوں کی طرح دوسرے مردوں کے ساتھ فارمنگ، موٹرسائیکل کے ذریعے کپڑے بیچنا، پلستر و چونائی اور کھیتوں میں کام کیا ہے۔
انہوںنے بتایا کہ انکی بہنیں ان سے عمر میں بڑی تھیں تو انہوں نے اپنی ہی دیہاڑی میں چاروں بہنوں کی شادی بھی کروائی اور بیمار ماں کا علاج بھی جاری رکھا۔
شہلا نے کہا کہ انہیں مردوں کے کپڑے پہن کر مردوں کے ساتھ کام کرنے پر شرمندگی بھی محسوس ہوتی تھی مگر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا غلط راستہ اختیار کرنے سے یہ بہتر سمجھا کہ مردوں کے ساتھ کام کریں۔
وہ کہتی ہے کہ آج کل وہ ایک شادی ہال کے خواتین لاونج میں بطور ویٹر کام کرتی ہے، کہا کہ انہوں نے اسی کام پر اپنے گاوں کی دس گیارہ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگایا ہے جنہیں پانچ سو روپے فی دن کا معاوضہ ملتا ہے۔
وہ کہتی ہے کہ یہ ایک مستقل کام نہیں ہے، جب وہ فارغ ہوتی ہے تو اکثر پلستر کے مستریوں کے ساتھ پلستر اور چونائی کا کام کرتی ہے۔
اُن سے ایک سوال کہ کیا خواتین کو معاشرے کا ایک کمزور طبقہ سمجھتا جاتا ہے تو انہوں نے جواب دیا ‘بالکل نہیں’ ، دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں جو مرد کرسکتے ہو اور خواتین نہیں کرسکتے۔
وہ کہتی ہے کہ گزشتہ روز میں چارسدہ بازار سے گزر رہی تھی تو ایک جوان بھکاری خاتون کو دیکھا جو مردوں کو کندھوں یا دامن سے پکڑ کر پیسے مانگتی تھی۔ "مجھے افسوس ہوا اور انُکے پاس آئی اور اس بات پر قائل کیا کہ ایسا کرنا نہایت قابل شرم ہے، کیوں نہ عزت کےساتھ میرے ساتھ شادی ہال پر کام کریں، وہ قائل ہوگئی اور انہیں میں نے اپنا موبائیل نمبر دے دیا، جسے میں اگلے اتوار کو اپنے ساتھ کام پر لگاونگی”۔
نوجوان لڑکی ہو، باہر مردوں کے ساتھ کام بھی کرتی نظر آئے تو کبھی ہراسانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شہلا تھوڑی رُک گئی اور روتی ہوئی آواز میں کہا کہ مجھے اپنی غربت مٹانے اور پیٹ پالنے کے چکر میں کئی افراد مزدوری کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ لے جا بھی چکے ہیں۔
کہتی ہے ایک دن ایک شخص نے انہیں پشاور میں ایک دوکان پر کام کرنے کا جھانسہ دیا جس کا انہوں نے اعتبار کیا اور اپنے ساتھ لے گیا’ وہاں پر مارکیٹ کے اوپر ایک کمرے میں بٹھایا اور دروازہ لاک کیا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ دروازہ کیوں لاک کیا تو اس نے کہا کہ ویسے ہی باتیں کرینگے جب وہ مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا تو میں اُسے زودار تھپڑ جھاڑ دیا اور چیخیں مارنا شروع کئے جس پر مارکیٹ میں موجود لوگ آئے اور انکی خوب پٹھائی کی’
شہلا نے کہا کہ کوئی خاتون اُس وقت تک مردوں کی ہوس کا نشانہ نہیں سکتی جب تک وہ خود اس کو اجازت نہ دے۔
خواتین کو پہیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام بہنوں سے درخواست کرتی ہے کہ کسی پر انحصار کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سوچیں کیونکہ خواتین کو ہی اپنے علاقے اور ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا پڑے گا اور جس قوم کی خواتین خودمختار ہوجاتی ہیں وہ قوم ترقی کی راہ پرگامزن ہوجاتا ہے۔