مصباح الدین اتمانی
وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیوں کیا، کتنے ووٹس درکار ہیں، اور ان کے حمایتی کتنے ہیں؟
سینیٹ انتخابات میں اکثریت کے باوجود حکومتی جماعت کو اسلام آباد کی جنرل نشست پر شکست ہوئی اور اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی سرخرو ہوئے، یہ پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کیلئے بڑا اپ سیٹ تھا کیوں کہ حکومتی جماعت کے تقریبا 20 ارکان نے اپنا ووٹ یا تو اپوزیشن کو دیا اور یا پھر انہوں نے اپنا ووٹ ضائع کر دیا تھا۔
اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس نے جان بوجھ کر ووٹ ضائع کیا اور کس سے غلطی ہوئی، کس نے اپنا ووٹ اپوزیشن کو بیچا اور کس نے اپنی حکومت سے نالاں ہو کر اپوزیشن امیدوار کو ووٹ دیا۔
لیکن یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور ان کی جیت حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی، اس سے یہ تاثر دیا گیا کہ اسمبلی نے عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس کے بعد حکومت متحرک ہو گئی اور اس سے پہلے کہ اپوزیشن مناسب موقعے پر عدم اعتماد کا بل لاتے وزیر اعظم عمران خان نے پہل کی اور خود اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا جو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان حکومتی ارکان کیلئے بھی ایک سرپرائز تھا جنہوں نے اپنی ہی حکومت کیخلاف ووٹ استعمال کیا تھا۔
وزیر اعظم کے اس اعلان سے حکومتی جماعت کو تین بڑے فائدے ہوں گے۔ اول تو یہ کہ اس اعلان کے بعد اب اپوزیشن جماعت آئین کے آرٹیکل 91 سیون کے تحت 6 مہینوں تک عدم اعتماد کا بل نہیں لا سکتے۔
دوسری بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف یا پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی جماعتوں کے جن امیدواروں نے اپوزیشن کو خفیہ ووٹ دیا تھا، اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے کیوں کہ شو آف ہینڈز میں وہ اپنے جماعت کیخلاف کھل کر سامنے نہیں آسکتے۔
تیسری بڑی بات شکست کے بعد عام لوگوں کی توجہ حاصل کی گئی اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اخلاقی جرات کر کے خود کو اسمبلی کے سامنے پیش کیا کہ اگر وہ اعتماد کرتے ہے تو ٹھیک نہیں تو اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔
عمران خان صاحب کو اعتماد کے ووٹ میں کامیابی کیلئے 172 ووٹس کی ضرورت ہے جبکہ اتحادیوں کو ملاکر ان کے پاس اپنے 180 ارکان موجود ہیں، جس سے بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ وہ ایوان کا اعتماد اسانی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن یہ اکثریت تو سینیٹ انتخابات میں بھی تھی لیکن وہاں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا اور صرف 164 ووٹ پڑے یعنی حکومتی جماعت کو اب اپنے ارکان پر اعتماد نہیں رہا اور اس عدم اعتماد کو حکومت کیلئے خطرہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومتی جماعت نے اس سے نمٹنے کیلئے تمام تر انتظامات کر لیے ہیں کل سے اپنے تمام ایم این ایز کو اسلام آباد میں جمع کر رکھا ہے، آج ناشتہ بھی ایک ساتھ کیا۔
اس کے علاوہ عمران خان نے تمام ممبران کے نام ایک خط بھی لکھا ہے کہ جو اجلاس میں نہیں آئے گا ان کیخلاف سخت کاروائی کی جائیں گی۔
اس تمام تر صورتحال سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی ممبر ایسی غلطی نہیں کریگا جو سینیٹ کے الیکشن میں کیا اور وزیر اعظم عمران خان اعتماد کو ووٹ آسانی سے حاصل کر کے خود کو چھ مہینوں کیلئے سیکیور کر لیں گے۔
لیکن دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کو حکومتی جماعت کے حکمت عملی کا موثر تھوڑ قرار دیا جا رہا ہے، اپوزیشن کے اس فیصلے سے اعتماد کی ووٹ کی اہمیت نہ ہونے کی برابر رہ جائے گی کیوں کہ جب اپوزیشن ارکان ایوان میں نہیں ہوگے تو حکومتی جماعت کا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔