خیبر پختونخوا

باجوڑ کے صحافیوں کی الف خان شیرپاؤ کے گھر پر حملے کی مذمت

باجوڑ پریس کلب نے چارسدہ کے سینئر صحافی الف خان شیرپاؤ کی رہائشگاہ پرنامعلوم افراد کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر دیا۔

باجوڑ پریس کل کے صدر حسبان اللہ، زاہد جان، عرفان اللہ جان، بلال یاسر، طاہر خان درانی، انور زادہ گلیار اور دیگر سینئر صحافیوں نے الف خان شیرپاؤ کے گھر پر نامعلوم افراد کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ سینئر صحافی کے گھر پر حملے سے ان کی ساری فیملی کو خوف زدہ کیا گیا، واقعہ کی تحقیقات کی جائیں اور ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔

خیال رہے کہ جعمرات کی شام تین نامعلوم نقاب پوشوں نے سینئر صحافی الف خان شیرپاؤ کے گھر کے دروازے پر چار فائر کئے اور فرار ہو گئے۔

چارسدہ پریس کلب کے صدر سبزعلی خان ترین نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان صحافت کے لحاظ سے ان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر صحافیوں کا قتل، تشدد اور ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے، ”پہلے صحافیوں کو دہشتگردی کا سامنا رہا اور اب دہشتگردی میں کمی کے بعد علاقے کے جرائم پیشہ عناصر صحافیوں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔”

انہوں نے چارسدہ میں صحافیوں کے خلاف ماضی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے سینئر صحافی احسان شیرپاؤ کو شہید کیا گیا، حالیہ دنوں میں پریس کلب ممبر سیف اللہ پر سیاسی پارٹی کی جانب سے تشدد کیا گیا اور اب الف خان شیرپاؤ کے گھر پر حملہ ہوا۔

صدر پریس کلب نے کہا کہ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 19 اور 19-اے ہر شہری کو معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے مگر کچھ لوگ صحافیوں اور عوام کو آئینی حقوق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے صحافیوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ”صحافی اظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کی حقوق اور تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”

پاکستان میں صحافیوں اور آزادی اظہار رائے کی حقوق کی تنظیم پریس فریڈم نیٹ ورک کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں سال 2019-20 کے دوران 7 صحافی قتل کئے جا چکے جبکہ پورے پاکستان میں صحافیوں کے 91 مقدمات درج کئے گئے جن میں 31 واقعات اسلام آباد، سندھ میں 24، پنجاب میں 20، خیبر پختونخواہ میں 13 اور بلوچیستان میں 3 کیسز منظرعام پر آئے ہیں۔

چارسدہ کے متاثرہ صحافی پر محمد زئی یونین آف جرنلسٹ، چارسدہ یونین آف جرنلسٹ، شبقدر میڈیا سنٹر، پشاور پریس کلب اور دیگر صحافتی تنظیموں نے بھی واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سوال اُٹھایا کہ جائے وقوعہ سے پولیس کی چوکی تین منٹ کے فاصلے پر ہے، کیسے واردات کے بعد ملزمان بہ آسانی فرار ہو گئے؟

صحافتی تنظیموں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چارسدہ سے مطالبہ کیا کہ انکوائری میں جائے وقوعہ کی قریبی پولیس چوکی کے اہلکار بھی شامل کئے جائیں، واقعے سے معاشرے اور صحافیوں میں خوف و ہراس پھیلا ہے لہذا ایف آئی آر میں دہشتگردی کا مقدمہ بھی شامل کیا جائے۔

جائے وقوعہ پر موجود چارسدہ تحقیقاتی پولیس کے سربراہ ایس پی انوسٹی گیشن سجاد خان نے بتایا کہ واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، پولیس کو احساس ہے کہ صحافی ایسے واقعات کا آسانی سے ہدف بننے والا طبقہ ہے مگر پولیس صحافتی تنظیموں سے مشاورت کے بعد انہیں ہر قسم کی تحفظ فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ واقعے کی تفتیش مختلف زاویوں سے کی جا رہی ہے اور ایف آئی آر میں مزید دفعات سرکاری وکیل سے مشاورت کے بعد شامل کی جائیں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button