لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے
عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آج پورے ملک میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبائی صدر خیبرپختونخوا ایمل ولی خان کی قیادت میں چارسدہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جبکہ اے این پی بونیر کی ریلی کی قیادت اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری جنرل و صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے کی۔
احتجاجی مظاہرے سے اپنے خطاب میں سردار حسین بابک کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا نہ غیر انسانی، غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے جو اے این پی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام باجوڑ پریس کلب کے سامنے بھی لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر باجوڑ کے لاپتہ افراد کے درجنوں لواحقین سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے سینکڑوں کارکنان موجود تھے۔ مظاہرے سے اے این پی باجوڑ کے صدر گل افضل، شاہ نصیر خان، ملک عطاء اللہ خان، نثار باز، صدیق اکبر، مولانا خانزیب اور دیگر نے خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اگر کوئی لاپتہ ہے تو اسے ڈھونڈے، انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے لوگوں کے پیارے لاپتہ ہیں اور ان کے لواحقین سڑکوں پر احتجاجوں پر مجبور ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا درد عوامی نیشنل پارٹی سے زیادہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا۔
اے این پی نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سینکڑوں کارکنان کی قربانیاں دی ہیں۔تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ان کا صاف و شفاف ٹرائیل کیا جائے،اگر کوئی قصوروار ہے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے اور بے گناہوں کو چھوڑ دیا جائے۔
کرک میں میسنگ پرسنز کے حوالے پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں مرکزی نائب صدر ارم فاطمہ ، ڈپٹی جنرل سیکر ٹری تیمورباز ،سابق ایم پی اے گل صاحب خان اور ضلعی عہدیدار شریک تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، ریاست مخالف قوتوں کے خلاف ہیں اور رہیں گے۔ اگر کو ئی ریاست مخالف قوتوں کیساتھ ملوث ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
تیمور باز نے کہا کہ موجودہ حکو مت کی کوئی اوقات نہیں ریاست سے درخواست ہے گمشدہ لوگوں کو انصاف دیا جائے اور قانون اور ائین کی پاسداری کی جائے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ گمشدہ لوگوں کو ما ورائے ائین حبس بے جا میں رکھا گیا ہے، تمام گمشدہ لوگوں کو عدالت میں پیش کیا جائے اگر قصوار ہو تو کھلے عام سزا دی جائے اگر قصور وار نہیں تو انکو گھر بھیجا جائے۔
لکی مروت میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ ہوا۔ مظاہرے کی قیادت عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی الیکشن کمشنر شاہی خان شیرانی کر رہے تھے، ضلعی صدر ملک علی سرور کا کہنا تھا کہ ریاست فورا لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں۔
ضلع خیبر میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام باڑہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان سمیت لاپتہ افراد کے ورثاء نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اعجاز یوسفزئی جبکہ ضلع خیبر سے صدر شاہ حسین شنواری، سینئر نائب صدر شیرین آفریدی، جنرل سیکرٹری صدیق چراغ، باڑہ صدر عمران، جمرود صدر عمر اور لنڈیکوتل صدر صدر جان سمیت دیگر شامل تھے۔ مظاہرین نے احتجاج کے موقع پر نعرہ بازی کی اور ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے حق میں نعرے درج تھے۔
واضح رہے چند بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے گزشتہ کئی روز سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاجی دھرنا شروع کیا ہے۔
دو روز قبل وزیرانسانی حقوق شیرین مزاری نے دھرنے میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے مسنگ پرسنز کی تفصیل مانگ لی جو وزیراعظم کوپیش کی جائے گی۔ وزیراعظم سٹیٹس معلوم کرکےمتاثرین سےملاقات کریں گے۔
وزیرانسانی حقوق شیرین مزاری نے ڈی چوک دھرنامیں موجود لا پتہ افراد کےاہل خانہ سے ملاقات کی اور مسنگ پرسنز کےبارے میں تفصیلات حاصل کیں ،شیریں مزاری نےدھرنا شرکاء کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم لاپتہ افراد کی فہرست کا جائزہ لے کر ان کا اسٹیٹس معلوم کرکے متاثرین سےملاقات کرکےاقدامات کی تفصیل بتائیں گے ۔ لا پتہ افراد کےاہل خانہ نےلاپتہ افراد کےکی عدم بازیابی کےحوالے سےشیریں مزاری کو تحفظات سےآگاہ کیا اورکہا کہ یہ لوگ جب بھی لاپتہ ہوئے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے بازیاب کرائے، اب تازہ یقین دہانی کےبعد حکومتی اعلامیہ کےمنتظر ہیں ،اس کےبعد احتجاج کےحوالےسےلائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔
شیریں مزاری نےدھرنا شرکا کواطمینان دلایا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سےوزیراعظم کی ہدایت پر انسانی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے۔
لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے 2011 میں قائم کیے گئے کمیشن کے مطابق ابھی تک سات ہزار افراد کے لاپتہ ہونے سے متعلق درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے پانچ ہزار افراد واپس آ چکے ہیں، تاہم لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکن ان اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے۔