افغانستان سے افواج کے انخلا پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ نیٹو
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا اور اس کے وقت کے بارے میں نیٹو نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کے تحت جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت ممکنہ واپسی کی آخری تاریخ یکم مئی تک مقرر کی گئی تھی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 11 ستمبر کو ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد سن 2001ء میں افغانستان پر دھاوا بولا تھا اور تب سے یہ جنگ جاری ہے جس پر اب تک سینکڑوں ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور اب نیٹو کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود بھی جمہوریت کی راہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا تھا کہ افغانستان سے اتحادی فوج کی واپسی شرائط کی بنیاد پر ہو گی۔
نیوزی لینڈ کا بھی افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان
افغانستان میں نیٹو فورسز نے ایک لمبی جنگ لڑی مگر اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا، آخر میں انہیں امن معاہدے کے تحت افغانستان کے علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑ رہی ہیں۔
امریکہ نے گزشتہ برس میں امن معاہدہ کیا اور اس کی پاسداری کرتے ہوئے کافی فوجی واپس بلا لیے تھے لہٰذا اب ایک اور اتحادی ملک نے بھی اپنے فوجی واپس بلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جسینڈا آرڈرن نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ میں خدمات انجام دینے کے بعد وہاں تعینات اپنے باقی ماندہ فوجی اہلکاروں کو مئی میں واپس وطن بلا رہی ہیں، ”افغانستان میں نیوزی لینڈ ڈیفنس فورس (این زیڈ ڈی ایف) کی20سال سے موجودگی کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بیرونِ ملک فوج کی تعیناتی ختم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی اندرونی طاقتوں کے درمیان مذاکرات سے واضح ہوتا ہے کہ شورش زدہ ملک میں داخلی امن پائیدار سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے افغانستان میں نیوزی لینڈ کی فوج کی مزید ضرورت نہیں۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان سے ترجیحی بنیادوں پر اپنی فوج واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
گذشتہ برس فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر وہ القاعدہ یا دیگر عسکریت پسندوں کو وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کام نہیں کرنے دیں گے اور قومی امن مذاکرات کے تحت آگے بڑھیں گے تو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی 14 ماہ میں تمام فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں طالبان نے انتباہ کیا تھا کہ اگر امریکہ گزشتہ سال 29 فروری کو طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹا، تو اس سے افغان جنگ میں خطرناک تیزی آئے گی اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
پاکستان، افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ خواہشمند ہے، وزیرخارجہ
دوسری جانب افغانستان میں مسعود فائونڈیشن کے چیئرمین احمد ولی مسعود نے وزارتِ خارجہ میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جمعہ کو وزیر خارجہ نے احمد ولی مسعود اور ان کے وفد کو وزارتِ خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان، افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ خواہش مند ہے اس لئے پاکستان، افغان امن میں خلوص نیت کے ساتھ مصالحانہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان کی مصالحانہ کاوشیں کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور امن معاہدہ طے پایا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن پورے خطے کیلئے ناگزیر ہے، بین الافغان مذاکرات کا انعقاد افغانستان کے مسئلے کے جامع اور مستقل سیاسی حل کیلئے انتہائی اہم موقع ہے، افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں ہرتشدد واقعات میں کمی لانے اور حالیہ جنگ بندی کیلئے تمام فریقین کو سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض بیرونی قوتیں افغان امن عمل کو ناکام بنانے کیلئے متحرک ہیں، ان عناصر پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پرامن، خوشحال اور مستحکم افغانستان کیلئے تمام فریقین کو مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، افغان امن عمل نے دہائیوں سے وطن واپسی کے منتظر افعان مہاجرین کے اندر امید کی کرن پیدا کی ہے، پاکستان، افغان مہاجرین کی باوقار وطن واپسی کا خواہاں ہے۔
وزیر خارجہ نے اراکین وفد کو پاکستان اور افغانستان کے مابین عوامی سطح پر روابط کے فروغ کیلئے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے تعلیم کے شعبے میں افغان طلباء کی معاونت کیلئے چھ ہزار وظائف کا اجراء کیا، پاکستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی سے متعلق مختلف منصوبہ جات کیلئے ایک ارب امریکی ڈالر کی خطیر رقم مختص کی، یہ اقدامات پاکستان کیطرف سے افغانستان کے ساتھ گہرے دو طرفہ تعلقات کا مظہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان سمیت پورے خطے کیلئے ناگزیر ہے۔
سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ایمبیسڈر محمد صادق بھی اس موقع پر موجود تھے۔