پاکستان سے ترکستان تک مشہور ”خال کی ٹوپی” کا کمال کیا ہے؟
جنید ابراھیم
تیمرگرہ ہیڈکوارٹر سے تقریباً بیس سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تحصیل خال کے باشندے زیادہ تر زراعت اور ہینڈی کرافٹس (ہاتھ سے بنی اشیاء) پر انحصار کرتے ہیں، تحصیل خال ثقافتی اور تاریخی ٹوپیوں ("د خال ٹوپئی”) کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے دکاندار رحم سید نے بتایا، ان ٹوپیوں کی قیمت دو سو سے لے کر پانچ سے چھ ہزار تک ہے، قیمتی ٹوپی آرڈر پر تیار کی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رحم سید نے کہا کہ یہ ٹوپیاں میری پیدائش سے پہلے یہاں بنتی آ رہی ہیں اور یہاں کے مقامی بازاروں میں فروخت ہوتی ہیں، اس میں خصوصی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ٹوپیاں خال کی مقامی خواتین اپنے گھروں میں ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں پھر ہمارا ان کے ساتھ ٹھیکہ ہوتا ہے اور ہم خرید کر اسے اپنی دکانوں میں سجا دیتے ہیں۔
رحم سید نے مزید بتایا کہ اس سے پہلے یہاں خال کی ٹوپیاں بہت مقدار میں بکتی تھیں، تقریباً یہاں کی لوکل مارکیٹ سے کروڑوں روپے کی تجارت ہوتی تھی مگر اب چائنیز، اور کوئٹہ کی بنی ٹوپیوں نے مارکیٹ خراب کی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خال کی ٹوپیاں وزن میں بھاری اور قیمت میں تیز ہوتی ہیں، چائینیز اور کوئٹہ والی ٹوپیاں ہلکی اور قیمت میں کم ہوتی ہیں۔
رحم سید نے بتایا، میں بہت چھوٹا تھا جب اپنے والد کے ساتھ دکان میں ٹوپیاں فروخت کرتا تھا، ”یہ ٹوپیاں پرانے کپڑے جو فیصل آباد سے آتا ہے، سے بنتی ہیں، اس میں چمکدار کپڑا، مارکین اور کئی طرح کے دھاگے استعمال ہوتے ہیں، خال کی یہ ٹوپیاں پاکستان سمیت افغانستان، ترکستان اور کئی ایشیائی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں، پاکستان میں باڑہ، جم، پشاور اور سوات میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں تحصیل خال بازار کے صدر اخونزادہ کلیم اللہ نے بتایا کہ خال کی یہ ٹوپی پشتونوں میں کافی مشہور ہے جو کہ خاص کر جمعہ کی نماز، عید اور خاص مواقعوں پر پہنی جاتی ہے، یہ ٹوپیاں یہاں کی خواتین اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں، ”اگر میں کہوں کہ تحصیل خال کا ہر گھر ایک چھوٹا کارخانہ ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔”
اخونزادہ کلیم کے مطابق حکومت کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، یہاں کی خواتین کیلئے ورکشاپس، ٹرینینگ مراکز کھولنے چاہئیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کو آن لائن تجارت بھی سکھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہاں کی خواتین کاروباری لحاظ سے اور آگے جا سکیں۔