جہیز کے ناسور کے خلاف سوات کے علمائے کرام متحرک
خالدہ نیاز
‘دیکھا جائے تو ہمارے پختون معاشرے میں بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت کے حق سے محروم کیا جاتا ہے جو ان کا شرعی حق ہے لیکن دوسری جانب انکی شادیوں کے موقع پر انکو جہیز سے لاد دیا جاتا ہے جبکہ اسی جہیز کی وجہ سے کئی بچیاں گھروں پر ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں’
قومی جرگہ تحصیل بریکوٹ کے سینئر نائب صدر شرافت کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پرجہیز اور باقی رسم و رواج کی وجہ سے سوات سمیت خیبرپختونخوا کے اکثر علاقوں میں کئی بچیاں گھرکی دہلیز پرہی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آجکل شادی کے موقع پرجہیز دینے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے اور جب بھی کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے تو والدین یا تو کسی سے قرض پیسے لیتے ہیں اور یا اپنی زمین بیچ دیتے ہیں جہیز کے لئے جو تشویشناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہیز کے ساتھ باقی بے جا رسومات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، اب ہرکوئی شادی ہالز میں شادی کرتا ہے اور وہاں مہمانوں پرقریبا 7 یا 8 لاکھ تک خرچہ ہوتا ہے جو ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں زیادہ ترلوگ غریب ہے لیکن ان بے جا رسومات نے انکے کمر توڑ دیئے ہیں۔
شرافت علی نے کہا کہ جہیز اور باقی بے جا رسومات کی روک تھام کے لیے سوات قومی جرگے نے چند روز قبل ایک جرگے کا انعقاد کیا جس میں بریکوٹ کے معززین سمیت علمائے کرام کو بھی مدعو کیا گیا تاکہ وہ بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرکے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
مہم چلانے کے بعد ایک معاہدہ بھی ہوگا
شرافت علی نے بتایا کہ قومی جرگے نے جہیز اور باقی رسومات کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جسکی شروعات انہوں نے پہلے جرگے سے کردی ہے اور اس کے بعد اب ہرجمعے کو تحصیل کے مختلف علاقوں میں جاکر لوگوں میں جہیز اور باقی بے جا رسومات کے حوالے سے شعور اجاگر کریں گے تاکہ تحصیل بریکوٹ سے یہ بے رسومات ختم ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ مہم کا اختتام ہونے کے بعد وہ اس حوالے سے ایک معاہدہ سامنے لائیں گے اور جس کسی نے پھر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو انکے ساتھ قومی جرگہ تعلق کو ختم کردے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ،بیٹی کے جہیز کا قرض اب بھی اتار رہی ہوں،
واضح رہے کہ جہیز پرپابندی اور شادی تقریبات سے متعلق اپریل 2017 میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا گیا ہے جسے کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے تاہم ابھی تک منظور نہیں کیا جاسکا۔
بل کے متن کے مطابق جہیزپرمکمل پابندی ہوگی اور خواتین کو حق وراثت میں مکمل حصہ دیاجائیگا اسی طرح کوئی بھی شخص اپنی بیٹی کو دس ہزارروپے سے زائد کاتحفہ نہیں دے سکے گا،اسی طرح شادی بیاہ کامکمل خرچہ جس میں ولیمہ بھی شامل ہے پر75ہزارسے زائد خرچ نہیں ہونگے۔
جہیزمانگنے پر لڑکے والوں کو دوماہ قید اور تین لاکھ جرمانہ کیاجائے گا
شادی بیاہ کی تقریبات میں نکاح اوربارات کے موقع پرلڑکی والے صرف ایک کھاناپیش کرینگے بارات آنے پر لڑکی والے صرف چائے یامشروب پیش کرینگے۔ بل کے مطابق کوئی بھی شادی بیاہ کی تقریبات دس بجے سے زائد تک جاری نہیں رہے گی جوکوئی ان قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کریگا ان پر دولاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قید یادونوں کی سزا سنائی جائے گی۔ لڑکے کی جانب سے جہیزمانگنے پر لڑکے والوں کو دوماہ قید اور تین لاکھ جرمانہ کیاجائے گا۔
شرافت علی نے مزید کہا کہ ان بے جا رسومات کی وجہ سے سوات میں اکثر غریبوں کی بیٹیاں گھرپر ہی بیٹھی رہ جاتی ہے کیونکہ وہ نہیں کرسکتے کہ اپنی بیٹیوں کو منہ مانگا جہیز دے اور جہیز کے جو رسم و رواج ہے وہ ہندوستانی ہے لیکن ہمارے علاقوں میں بھی بہت عام ہوگئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کافی حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قومی جرگہ یہ مہم اپنی مدد آپ کے تحت چلائے گا جس کا بنیادی مقصد علاقے سے ان بے جا رسومات کا خاتمہ ہے۔
مہم میں علماء کا کردار کیا ہوگا؟
بریکوٹ سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد شعیب نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مہم میں علماء کا کردار یہ ہوگا کہ وہ قرآن و احادیث کی روشنی میں لوگوں کی ان رسومات کے متعلق رہنمائی کریں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام انسانوں کو اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آجکل لوگ نمودو ریا میں مصروف ہوگئے ہیں اور ہرکوئی کوشش کرتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر دوسرے بندے سے زیادہ خرچ کریں جس سے معاشرے میں بہت بے چینی پھیل رہی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ ان بے جا رسومات کو ترک کرکے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں حق دیں جسکی وہ حقدار ہے اور یہ ان کا شرعی حق ہے۔