”لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ تمہاری بھابھی تو باہر کام کرتی ہے”
صبا علی
دیور سے لڑائی، دیورانی کے طعنے اور محلے کی مشکوک نظروں سے زینب کی صبح کا آغاز ہوتا ہے اور وہ کئی عرصے سے یہ سب کچھ برداشت کرتی آ رہی ہیں۔
مردان کے علاقہ بخشالی سے تعلق رکھنے والی 3 بچوں کی ماں زینب ایک غیرسرکاری ادارے میں کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے ، شوہر کی اجازت کے باوجود زینب کے سسرال والے یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی بھابھی باہر جا کر نوکری کرے تاہم زینب ان سب کی پرواہ کیے بغیر نوکری کرتی ہیں اور وہ اپنے اس فیصلے پر ثابت قدم ہیں۔
"میں جب صبح کام کرنے گھر سے باہر نکلتی ہوں تو میری ساس اور دیور کہتے ہیں تمہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، تمہارا شوہر تمہیں ہر چیز دلاتا ہے کیا ضرورت ہے مردوں کی طرح صبح گھر سے نکل کر شام کو واپس آنے کی، یہ اچھی بات نہیں، ہمارے گھر کی عورتوں نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا ہے۔”
زینب کے مطابق ایک عورت کیلئے مشکل ہوتا ہے کہ وہ قدامت پسند معاشرے میں نوکری کرے اور مجھے بھی اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں سب کچھ چھوڑ دوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور نوکری کے ساتھ ساتھ گھر اور بچوں کا خیال بھی رکھتی ہوں۔
ٹی این این سے اس حوالے سے بات چیت کے دوران زینب کا کہنا تھا کہ وہ معاشرے میں ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہیں کیونکہ اگر ایک لڑکی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنے معاشرے اور خواتین کیلئے کچھ کام نہیں کر سکتی تو یہ ان کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
رحمان اللہ زینب کا چھوٹا دیور ہے اور اس کا اٹھنا بیھٹنا اکثر حجرے اور دیگر ہجوم والی جہگوں میں ہوتا ہے جہاں، بقول اس کے، لوگ اسے یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تمہاری بھابھی تو باہر کام کرتی ہے، وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا۔
رحمان اللہ کے مطابق جب اس کی بھابھی باہر نوکری کرتی ہیں تو گھر میں ان کے بچوں کا کوئی خیال نہیں رکھتا اور جب وہ گھر آتی ہیں تو بچے دن بھر ماں کا انتظار کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں اور ماں کی ممتا کے بغیر سو جاتے ہیں۔
رحمان اللہ کا کہنا ہے کہ وہ باہر لوگوں کے طعنوں سے تنگ آ چکا ہے کیونکہ وہ کب تک لوگوں کی باتیں برداشت کرتا رہے گا اس لئے جب صبح ان کی بھابھی کام پر جاتی ہیں تو وہ انہیں منع کرتے ہیں اور بات اکثر لڑائی تک پہچ جاتی ہے۔
وہ مانتا ہے کہ تعلیم یافتہ بھابھی کی وجہ سے ان کے خاندان کو فائدہ ملا ہے کیونکہ اگر گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے اور اسے دوا کی ضرورت ہو تو بھابھی دوا کی تاریخ اور نام پڑھ کر مریض کو بروقت دوا دیتی ہیں اور اس طرح مریض کی مناسب دیکھ بھال ہوتی ہے۔
زینب کی طرح ایسی سینکڑوں خواتین ہیں جو اس معاشرے میں ایسی مشکلات سے دوچار ہیں ۔ اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر ظفر خان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں خواتین کے باہر کام کرنے کی مخالفت کی بڑی وجہ معاشرے کی ترقی میں خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔
ظفر خان کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے پشتون معاشرے میں خواتین کو گھروں تک محدود رکھا جاتا ہے اور اگر کوئی عورت باہر نوکری کرے تو معاشرہ انہیں باغی کے نام سے بلاتا ہے۔
"یہ چیز ہمیں وراثت میں ملی ہے کہ ہم خواتین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صرف گھر تک محدود رہیں لیکن امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آئے گی جس کے بعد ممکن ہے ہم خواتین کی اہمیت کو جان جائیں اور انہیں بھی باہر کام کرنے کے مواقع فراہم کریں۔”
پروفیسر ظفر خان کے مطابق گھریلو مخالفت اور معاشرے کے رویوں کی وجہ سے باہر کام کرنے والی خواتین پر منفی اثر پڑتا ہے اور کام کرنے کے دوران ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جس کا اثر خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی پڑتا ہے۔
اگرچہ زینب نے بہادری سے گھر اور معاشرے کی مخالفت کا سامنا کیا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ اکثر اوقات جب وہ بہت تنگ آ جاتی ہیں تو نوکری چھوڑنے کی سوچ پر مجبور ہو جاتی ہیں تاہم پروفیسر کا کہنا ہے کہ اگر کام کرنے والی خواتین کو گھر اور دفاتر میں یکساں انصاف فراہم کیا جائے تو ممکن ہے کہ ان کی مشکلات میں کمی واقع ہو۔