خواتین غلط معلومات اور افواہوں پر جلدی کیوں یقین کرتی ہیں؟
سدرہ، مریم
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی اس سے جڑے غلط معلومات اور افواہیں بھی گرم ہیں اور روز بروز اس میں نت نئے اضافے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ غلط معلومات اور افواہیں صرف ہماری جیسے پسماندہ معاشروں تک محدود نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں لیکن ہر معاشرے میں ان کی اقسام الگ الگ ہوتی ہیں۔
ہمارے ملک اور بالخصوص معاشرے میں دیکھا جائے تو کورونا وبا سے متعلق غلط معلومات اور افواہوں سے زیادہ تر خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے ان غلط معلومات کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کی وجہ بھی خواتین ہی ہیں۔ مردوں کی بہ نسبت خواتین کسی بھی افواہ کو جلد نہ صرف خود سچ مانتی ہیں بلکہ بغیر تصدیق کئے آگے بھی بھیجتی ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران سلیمانی چائے ، ثنا مکی قہوہ پینے سے کورونا وائرس کا علاج، ہسپتال میں مریضوں کو زہریلی انجکشن لگانا، عام مریضوں کو کورونا لسٹ میں ڈالنا اور ایسے دیگر افواہیں ہمیں سنے کو ملے ہیں جس سے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقوں کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر خواتین زیادہ متاثر ہوئی ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ خواتین وباء کے دوران پھیلنے والی غلط معلومات پر زیادہ یقین کرتی ہیں۔
مردان کے علاقہ پوردل آباد سکندری سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں سمیرہ بھی ان خواتین میں شامل ہے جس نے کورونا وائرس کے دوران پھلنے والے غلط معلومات پر یقین کیا تھا اور وہ اس قدر ڈر گئی تھی کہ اس نے سارے ٹوٹکے اور دم درود پر خود پر آزمائی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے سمیرہ کا کہنا تھا کہ جب کورونا وائرس کی پہلی لہر تیزی سے بڑھنے لگی تو انہیں اپنے بچاؤ کی فکر ہونے لگی اور اس دوران ان کی بہن نے فون پر بتایا کہ وہ خود اور اپنے بچوں کو سلیمانی چائے پلائے کیونکہ اس طرح کرنے سے وہ کورونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔
سمیرہ کے مطابق سلیمانی چائے پینے کے بعد بھی وہ مطمئین نہیں تھی تو محلے کی ایک عورت نے اسے وظیفہ بتایا اور کہا کہ وہ اپنے گھر دروازے پر اس کو باندھ لے اور ایسا کرنے سے کورونا وائرس اس کے گھر کا رخ نہیں کریگا۔
معاشرے میں غلط معلومات پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟
معروف سوشیالوجسٹ ماہر ہمایون خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وبائی صورتحال کے دوران غلط معلومات اور افواہیں پھینلے کی بڑی وجہ معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے تو اس وجہ سے کورونا وائرس کے دوران غلط معلومات اور افواہوں سے خواتین زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
ہمایون خان کے مطابق چونکہ ہمارے علاقوں میں خواتین کو صحیح معلومات تک رسائی ممکن نہیں ہے نہ تو وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے اور نہ ہی وہ یہ جانتی ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط معلومات میں فرق کرسکیں اس لئے وہ بہت جلد سنی سنائی باتوں پر یقین کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے گھروں میں خواتین کے ساتھ روزمرہ معاملات پر بات کریں اور انہیں صحیح اور غلط معلومات میں فرق جاننا سکھائیں تو امید ہے کہ مسقبل میں ہم کافی حد تک غلط معلومات اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے سے بچ سکتے ہیں۔
کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی غلط معلومات پھیلتی ہیں ؟
کورونا وائرس کے متعلق غلط معلومات نے نہ صرف پاکستان میں لوگوں کو متاثر کیا ہے بلکہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کافی حد لوگ غلط معلومات کا شکار ہوئے ہیں جس کی روک تھام کیلئے ان ممالک میں نہ صرف سرکاری سطح پر بلکی نجی سکیٹر میں کوشش کی گئی ہے۔
اس حوالے میں مردان میں ایک غیر سرکاری فلاحی ادارہ "زمونگ ویلفئیر سوسائیٹی” نے غلط معلومات پھینلے کی روک تھام کیلئے کوششیں کی ہے۔ اس تنطیم کے سربراہ محمد زبیر کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر ایک مہم چلائی اور گھر گھر پمپلیٹ تقسیم کیے جس میں عوام کو غلط معلومات سے بچنے کے بارے میں اگاہی دی جاتی تھی۔
محمد زبیر نے بتایا کہ انہوں نے فی میل سٹاف کی بدولت اپنی رسائی گھر گھر تک باآسانی پہنچائی اور خواتین کو کورونا وائرس سے بچنے کے صحیح راہ دکھائی جس میں انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھوں کو دھوئیں، ماسک کا استعمال لازمی کریں ، بغیر ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے اور باہر جانے کے بعد سب سے پہلے ہاتھ دھوئیں اور سنیٹائزر کا استعمال کریں۔
کیا غلط معلومات پھیلنے سے حکومتی پالیساں متاثر ہوئی ہیں ؟
مردان کے ایڈیشنل ڈپٹی کشمنر نیک محمد کے مطابق غلط معلومات پھیلنے کی وجہ سے حکومتی پالیساں کافی حد تک متاثر ہوئی ہے اور وباء کے دوران غلط معلومات کی وجہ سے انتظامیہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
نیک محمد کا کہنا ہے کہ ہم نے اچھے طریقے سے غلط معلومات کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ نے عوام میں اگاہی کیلئے مختلف قسم کے سیمینارز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جس میں لوگوں کو غلط معلومات سے بچنے کی تلقین اور صحیح معلومات پر عمل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
غلط معلومات پر ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟
اسلام آباد کے ایچ بی ایس ٹیچنگ ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر عمر رحمان کے مطابق دنیا میں وباؤں سے ہونے والے نقصان میں افواہوں اور غلط معلومات کے پھیلائے جانے کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ صحت نے وباؤں سے متعلق افواہوں کے لیے ایک نئی ٹرم کا اختراع کیا ہے جسے ’اِنفوڈیمک‘ کہا جاتا ہے۔
ایپی ڈیمک (وبا) اور انفارمیشن (معلومات) کے امتزاج سے بننے والی اس ٹرم کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر رحمان نے کہا کہ بعض اوقات کسی وبا کی نسبت اس سے متعلق افواہیں اور غلط معلومات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کرونا وائرس کے سلسلے میں افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور نہ ہی ان پر توجہ دینا چاہیے۔ڈاکٹر عمررحمان نے بتایا کہ افواہوں کی وجہ سے لوگ گھبرا جاتے ہیں، جو کسی وبا کی صورت میں بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں چہرے پر پہننے والے ماسک کی نایابی اور قیمتوں میں اضافے کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محض افواہوں اور غلط معلومات کی وجہ سے ہوا۔
کرونا وائرس بہت خطرناک نہیں
بین الاقوامی ادارہ صحت سے حاصل کردہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں شرح اموات وائرس کی وجہ سے ہونے والی دوسری بیماریوں سے بہت کم ہے۔
مثال کے طور پر کتّے کے کاٹے سے ہونے والی بیماری ریبیز کے مریضوں میں شرح اموات سو فیصد ہے جبکہ برڈ فلو میں یہی اوسط 60 فیصد ہے، لیکن کرونا وائرس کے مریضوں میں شرح اموات محض دو فیصد ہے۔ یعنیٰ 98 فیصد لوگ اس بیماری کا شکار ہونے کے باوجود بخیر و عافیت صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کتنی کم خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مریض سے یہ بیماری صرف تین دوسرے افراد کو منتقل ہو سکتی ہے جبکہ خسرہ کا ایک مریض کم از کم 15 صحت مند افراد میں بیماری منتقل کر سکتا ہے۔