خیبر پختونخوا کا نیا قانون گھروں کے اندر خواتین کا تحفظ کیسے کرے گا؟
اسماء گل
خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم سیاسی جماعتوں ، سول سوسیاٹیز اور غیر سرکاری تنظیموں نے خواتین پر تشدد کی روک تھام اور سدباب کے متعلق صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ قانون کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون سازی پر عمل درآمد کے بغیر گھریلوتشدد کے شکار خواتین کو تحفظ کی تمام تر کوششیں بے کار تصور ہوگی۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار ان جی اوز کے سربراہان کاکہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے دورآفتادہ علاقوں میں تھانوں کے اندار خواتین عملے کی عدم فراہمی کے باعث گھروں میں تشدد کے شکار ہونے والے خواتین قانونی کارروائی کے لئے پولیس تک رسائی سے کتراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے گھریلو تشدد کے اقعات رپورٹ نہیں ہوتے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کے محکموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
قانون تب موثر ثابت ہوگا جب اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہو
ایسوسی ایشن فار بی ہوئیر اینڈ نالج ٹرانسفرمیشن کی بانی بین الاقوامی سطح پر بہادر خاتون کا اعزا ز رکھنے والی شاد بیگم نے ٹی این این کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ خواتین کو گھریلو تشدد سے محفوظ بنانے کے لئے گزشتہ دو دہائیوں سے خیبر پختونخوا میں ان کے ادارے سمیت کئی غیر سرکاری تنظیم میں کام کررہی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں کی گئی کہ بلا وجہ گھروں میں خواتین تشدد کے شکار ہورہے ہیں جس کی روک تھام اور سدباب کے لئے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے اور بلا آخر آج وہ دن آیا کہ خیبر پختونخو ا اسمبلی سے خواتین پر گھریلوں تشدد کی روک تھام اور سدباب کے لئے قانون سازی ہوئی جوکہ لائق تحسین عمل ہے، انہوں نے کہا کہ یہ قانون تب موثر ثابت ہوگا جب اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہو۔
شاد بیگم سمجھتی ہے کہ منظور ہونے والے قانون پر عمل درآمد کے وقت درپیش مشکلات پر میڈیا اپنی توجہ مرکوز رکھے اور گھریلوں تشدد کے قانون میں حائل روکاٹ کو حکومت ان کے اداروں اور عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون سازی کو اسمبلی سے منظور کرنے کے لئے ایک دہائی سے ذیادہ عرصہ لگا ۔ انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کو خواتین کی تحفوظ کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 2021 کے اوئل میں خواتین پر گھریلو ں تشدد روک تھام اور سدباب کے متعلق قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نہایت اہمیت کی حامل بات ہے کہ معاشرے کا ہر فرد یہ جان سکے کہ خواتین بھی اس معاشرے کا اہم عنصر ہے اور انہیں عزت و احترام کا وہ مقام دیا جائے جوہمارے معاشرے میں ایک مرد کو حاصل ہے۔
قانون سازی پر عمل درآمد کے لئے ضلعے کی سطح پر ایک کمیٹی ہوگی
پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے خواتین پر تشدد سے روک تھام اور اس کی سدباب کے متعلق قانون سازی نہایت ہی خوشی کی بات ہے ۔ اس قانون سازی پر عمل درآمد کے لئے اضلاع کی سطح پر ایک کمیٹی ہوگی اور ماہانہ اس کا ایک جائزہ اجلاس ہوگا، اس کمیٹی میں خواتین پارلیمنٹرین ، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے سربراہان ہونگے ، اس کے علاوہ شکایات کنندہ کے ساتھ معاونت کے لئے حکومتی مشنری چوکنا رہے گا ۔ گھریلو تشدد کی روک تھام اور سدباب کے متعلق بل کے مسودے میں ترمیم میں کے لئے بننے والی سلیکٹ کمیٹی کی ممبر شگفتہ ملک کا کہنا ہے کہ مسودے میں ترامیم کے وقت یہ بات سامنے آئی کہ شکایات کنندہ خاتون اگر عدالت میں جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی تو درخواست گزار خاتون کو پچاس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جس کو ذیادتی کے مترادف تصور کرتے ہوئے کمیٹی کو اس بات پر کائل کی کہ اس میں ترمیم کرکے شکایات کنندہ کے حوالے سے اس سزا کو حذف کردیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون پر عمل درآمد کے لئے متعلقہ کمیٹیوں میں خواتین ممبران کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں خواتین پر تشدد کرنے والے کو پانچ سال قید کی سزا ہوگی
مجرم کے لیے کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا مقرر
پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نگہت اورکزئی کا کہنا ہے کہ گھریلوں تشدد سے روک تھام کے متعلق قانون سازی ان خواتین کے لئے جوکہ ذہنی ،معاشی، جسمانی طور پر تشدد کے شکار ہوتے ہیں ان کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اضلاع میں قائم کردہ کمیٹیاں ماہانہ کی بنیاد پر گھریلو تشدد کے متعلق رپورٹ مرتب کرے گی۔ بل میں سزاوں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جرم کے مرتکب فر د کوکم از کم ایک سال اور ذیادہ سے ذیادہ پانچ سال کی سزا مقرر کردی گئی ہے ۔ شکایات کنندہ سولہ دن کے اندار رپورٹ درج کرنے کی پابند ہوگی جبکہ کیس کے متعلق عدالت دو ماہ میں فیصلہ دے گا ۔ جماعت اسلامی کی رکن اسمبلی حمیراخاتون کا کہنا ہے کہ سلیکٹ کمیٹی میں قانون سازی کے مسودے کے نام پر اعتراض اٹھایا تھا اور استدعا کی تھی کہ خواتین پر گھریلوں تشدد (روک تھام اور سدباب ) سے تشدد کا لفظ ہو ہٹا دیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی مناسب لفظ لکھا اور پکار جائے جس پر وزیر سوشل ویلفیئر ہشام انعام اللہ خان متفق بھی ہوگئے تھے تاہم اسمبلی سے بل منظور کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ اسلام اور پختون روایت پر مشتمل معاشرہ ہے اس بات کی خصوصی طور پر خیال رکھا جائے کہ قانون سازی پر عمل درآمد کرتے وقت معاشرتی روایت و اقدار پامال نہ ہو ۔