دس سال سرکاری نوکری کے باوجود آج تک اپنی تنخواہ کا پتہ نہیں چلا
سٹیزن جرنلسٹ بشری محسود
شادی کے بعد اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک شوہر نے لے لیا، وہ پورے مہینے کیلئے میری تنخواہ سے مجھے صرف ساڑھے تین ہزار روپے دیتے ہیں جس پر میرا گزارہ بمشکل ہوتا ہے۔
یہ کہنا ہے ضلع باجوڑ کے تحصیل اتمانخیل سے تعلق رکھنے والی مریم (فرضی نام) کا جو ایک سرکاری سکول میں پچھلے گیارہ سال سے بچوں کو پڑھاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ والدین نے انتہائی غربت کے باوجود مجھے پڑھایا، اسلئے میں دوسری طالبات کی مقابلے میں زیادہ محنت کرتی تھی تاکہ میں ایک دن ان کا سہارا بنوں لیکن جب نوکری ملی اور شادی ہوگئی تو میری تنخواہ میرا شوہر لینے لگا، وہ مجھے ہر مہینے صرف ساڑھےتین ہزار روپےدیتے ہیں جس میں میرا اور میرے بچوں کا انئہائی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔
مریم نے بتایا کہ جب میں اپنی تنخواہ کے حوالے سے باتی کرتی ہوں تو مجھے طلاق اور گھر میں بند رکھنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میرے اخراجات بڑھ جاتے ہیں تو میں ایک دوسرے سے ادھار لینے پر مجبور ہو جاتی ہوں۔
ضم اضلاع میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں لیکن مالی وسائل پر ان کا اختیار نہ ہونے کے برابر ہے، ایک خاتون خواہش کے باوجود اس وقت تک اپنے لئے کپڑے نہیں خرید سکتی جب تک اس میں شوہر کی مرضی اور سپورٹ شامل نہ ہو۔
ضم اضلاع کی خواتین انتہائی محنت کش ہیں ، وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بال کے ساتھ مردوں کے ہمراہ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں، وہ پہاڑوں سے لکڑیاں بھی لاتی ہیں اور مردوں کیلئے کھانا بنانا، ان کیلئے کپڑے وغیرہ دھونا بھی انہی کی ذمہ ہوتا ہے۔
ضم اضلاع میں خواتین کو معاشی طور پر کمزرو رکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خواتین معاشی طور پر خودمختار ہونگی تو ان پر خاندان میں مرد افراد کا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ مریم نے اپنی بات اگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ میں احساس کمتری کا شکار ہوئی ہوں، میں خود کو ایک دیہاڑی دار مزدور سے بھی کمتر سمجھنی لگی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کئی سال محنت کی، تب مجھے نوکری ملی، مریم نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ جب تک مردوں کی یہ ذہنیت ہو یہاں بچیوں کا پڑھنا بے معنی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں ضم کیے جانے والے قبائلی اضلاع کی خواتین کو روزگار کی فراہمی کے لیے "وومن انٹرپینیور شائنگ تھرو کنسٹرینٹس” کے نام سے ایک پروگرام کا اغاز بھی کر دیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت ضم اضلاع کے تین ہزار خواتین کو ہارٹی کلچر، ڈیری، مرغبانی، فوڈ پراسیسنگ اینڈ پیکجنگ، ہاتھ سے بنی اشیاء، لائیو سٹاک، زراعت اور کچن گارڈننگ کے شعبہ جات کی صوررت میں روزگار کے مواقع تک رسائی دی جائے گی تاکہ ترقی کی عمل میں ان کو بھی حصہ دار بنایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پروگرام میں شریک خواتین کو روزگار کی صورت میں وسائل کا اختیار ہوگا یا نہیں۔
نجمہ (فرضی نام )کا تعلق وزیر ستان سے ہے اور وہ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ مردوں کے ہمراہ چلغوزوں کے باغات کو سنبھالنے کا کام کرتی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب چلغوزوں کا موسم ہوتا ہے تو ہم ساری خواتین مردوں کے ہمراہ چلغوزوں کے پہاڑ پر جاتے ہیں، وہاں ہمارے مرد پھل توڑتے ہیں اور کٹائی کرتے ہیں باقی کام ہم خواتین کے ذمہ ہوتا ہے۔
نجمہ نے بتایا کہ ہم چلغوزوں کو اکٹھا کرتے، اس کو پہاڑوں سے نیچے گھروں تک لیکر آتے ہیں، اکثر خواتین کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں، کام مکمل ہونے تک ہم اس میں مصروف ہوتے ہیں،
انہوں نے کہا کہ یہ بہت محنت و مشقت والا کام ہے کیوں کہ پہاڑوں سے بوجھ آٹا کر نیچے گاڑیوں یا گھروں تک لے کر آنا ہوتا ہے۔
ظاہری بات ہے مشقت والا کام ہے پہلے اکٹھا کرنا پھر بوریوں میں لانا، گھر میں اس کو خشک کرنا ان تمام مراحل میں ہم شریک ہوتے ہیں، بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہےنجمہ نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معاوضہ تو نہیں ملتا کیوں کہ مردوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ہماری تمام ضروریات پوری کرتے ہیں تو پھر پیسوں میں حصہ کیوں دیں۔
لیکن ہر عورت کی ضرورت ہوتی ہے، سارے خرچے شوہر بھی کریں تو بھی ان کی ذاتی ضروریات ہوتی ہیں، بہت سے چیزیں لینے کیلئے دل کرتا ہے جس کیلئے پیسوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
حکومت کی جانب سے خواتین کو بااختیاربنانے کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور اس ضمن میں مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں خواتین کو سلائی کڑھائی، ایمبرائیڈری اور دیگر ضروری ہنر سکھانا شامل ہیں۔
ضم اضلاع کے خواتین کو بااختیاربنانے اورانہیں آسان روزگار فراہم کرنے کے ضمن میں مختلف ضم اضلاع میں 44تربیتی مراکز قائم گئے ہیں جہاں خواتین کو سلائی کڑھائی، ایمبرائیڈری اور دیگر ضروری ہنر سکھائے جارہے ہیں۔ ان مراکز پرمجموعی طور پر381ملین روپے کی لاگت آئی ہے۔
ناہید آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہیں اور وہ خواتین کی حقوق کیلئے "تکڑہ قبائلی خور” کی پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہے۔ جب ہم نے ان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ خواتین کو تو نہ ہی وسائل پر اختیار ہے ۔نہ تنخواہ پہ اختیار ہے اور نہ ہی اپنے پیسوں پر ان کو اختیار ہے۔
ناہید افریدی نے بتایا کہ یہ صرف قبائلی علاقے نہیں بلکہ پاکستان کے بہت سارے علاقوں میں یہ مسئلہ موجود ہے۔
ایک لڑکی نوکری کرتی ہے لیکن ان کو اپنی تنخواہ پر اختیار نہیں پھر بدقسمتی سے قبائلی علاقوں میں تو پراپرٹی کی تقسیم بھی نہیں ہوئی خواتین کو والدین کی وراثت میں سے حصہ بھی نہیں ملتا یہ بہت لانگ ٹرم پراسیس ہے اس میں بہت وقت لگے گا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شارٹ ٹرم ہے جس کے لیے ہم کچھ سرگرمیاں کر لیں یا چند اگاہی سیشنز منعقد کریں تو لوگ سمجھ جائیں گے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا اس کے لئے ہمیں بہت وقت چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مائنڈ سیٹ بدلنے کے لیے بہت وقت چاہیے اور بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔
قبائلی اضلاع کو اگر ہم دیکھیں تو فرض کرے ایک عورت ٹیچر ہے، تنخواہ اکاونٹ میں بھیجی جاتی ہے تو انکی تو بینک میں اکاؤنٹ ہی نہیں ہے ۔حکومتی سطح پر چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ خواتین کے لیے اکاؤنٹ بنانے میں آسانی ہو اور ان کو بتایا جائے کہ اے ٹی ایم کارڈ کو کیسے آپریٹ کرنا ہے، موبیلٹی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرد ان کو پیسے نہیں دیتے لیکن زیادہ تر خواتین میں موبیلٹی کا ایک مسئلہ ہے کے عورت بینک کیسے جائے گی اور کاروبار کیسے شروع کرے گی یا فرض کریں کہ اور کام کیسے کرے گی اے ٹی ایم کارڈ کیسے استعمال کرے گی تو یہ مسائل جو ہے یہ بہت زیادہ ہے جس کیلئے وہ کی مائنڈ سیٹ اپ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ضم اضلاع کی خواتین کو وسائل پر اختیار اس لئے نہیں دیا جا رہا ہے کہ پھر وہ خودمختار ہو جائیں گی اور مردوں پر ان کا انحصار کم ہو جائے گا لیکن یہ ایک غلط اور فرسودہ سوچ ہے جس کی بیخ کنی کیلئے ضروری ہے کہ باشعور مرد و خواتین سمیت حکومتی ادارے اپنا اپنا کردارادا کریں۔