کورونا وباء، ڈاکٹروں کی طرح صحافی اور پولیس بھی حیران و پریشان
محمد طیب، زاہد جان
کورونا وبا کی دوسری لہر میں تیزی سے اضافہ جاری ہے جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ صحافی برادری میں خدشات پھیل گئے ہیں کیونکہ طبی عملے کی طرح صحافی بھی کوروناء وبا کے خلاف پہلی صف میں کھڑے ہیں اور کٹھن حالات میں اپنے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
کرونا وائرس لگنے کے خدشات کے علاوہ صحافتی کمیونٹی معاشی طور بھی کرونا وباء کے دوران متاثر ہوئی کیونکہ بہت سارے میڈیائی اداروں نے وباء کے دوران ڈھیر سارے صحافی ورکرز کو نوکریوں سے برخاست کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مالی طور پر کمزور کیا بلکہ ذہنی طور پر بھی ڈیر سارے مسائل کے شکار ہیں۔
پشاور میں انگریزی روز نامہ ڈان کے سینئر رپورٹر وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ کورونا وباء کے پاکستان میں اچانک پھیلنے اور وباء کی سمجھ نہ ہونے سے صحافیوں نے بہت نقصان اُٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا سے بچنے کے حوالے سے پاکستان میں میڈیا کے بڑے اداروں نے بھی کوئی صحافیوں کو کوئی خاص تربیت نہیں دی جبکہ ہم ایسے وقت میں تربیت کے لیے بیرونی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ وباء کے دوران لاک ڈاؤن لگا تو جو صحافی مختلف فیلڈز میں رپورٹنگ کر رہے تھے تو اُ ن صحافیوں کو بھی وہاں پر لاک ڈاون اور بندش کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ صحافیوں کی تربیت بھی نہیں تھی، "اب بھی صحافیوں کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے لہذا اداروں کے ساتھ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ صحافیوں کو کورونا کے دوران محفوظ رہنے کی مطلوبہ ٹریننگ دیں کیونکہ وباء تو اب بھی جاری ہے۔” وسیم احمد شاہ نے کہا۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے اعدادوشمار کے مطابق اب تک پشاور میں میڈیا کے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے 41 صحافی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جن میں نجی ٹیلی ویژن سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی فخرالدین سید زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس کے ساتھ ساتھ کورونا کے دوران میڈیا نے 181 کے لگ بھگ ورکرز ملازمت سے فارغ کر دیئے جن میں 110 کے قریب صحافی تھے جس کی وجہ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر فدا خٹک نے اس حوالے موقف اپنایا کہ یونین نے اپنی ذاتی کوششوں سے بے روزگار صحافیوں کے لیے سرگرمیاں کیں لیکن حکومت نے اس حوالے سے کوئی مدد نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ وباء کے دوران متاثر صحافیوں کے ساتھ مالی امداد کی گئی جبکہ مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے صحافیوں کے کورونا سکریننگ ٹیسٹ کیے گئے، "جہاں تک کورونا سے بچاو کے حوالے سے تربیت کا سوال ہے تو اس حوالے حکومت متعلقہ اداروں صحافیوں کی کوئی ٹریننگ نہیں دی البتہ یونین نے اس حوالے تمام دفاتر میں نوٹس بورڈ پر حفاظتی تدابیر آویزاں کیں اور کورونا سے بچاؤ کا سامان تمام صحافیوں کو مہیا کیا۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ سینئر صحافی علی حضرت باچہ کا کہنا ہے کہ کورونا وباء کے دوران صحافی برادری بہت سخت مشکلات سے گزری، اس دوران فیک نیوز نے بھی گردش کی اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن گئیں جس کی سب سے بڑی وجہ صحافیوں کی اس حوالے کوئی تربیت نہیں تھی، فیک نیوز میں اہم کردار سوشل میڈیا نے ادا کیا تاہم بعض صحافی بھی اس میں شریک کار رہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ صحافیوں کو اس حوالے تربیت دینے کے ساتھ ساتھ حکومت سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنائے تاکہ کسی بھی وباء کے دوران فیک نیوز سے پبلک کو بچا یا جا سکے۔ انہوں کہا کہ جب سے کورونا وباء آئی ہے تو اس دوران فیک نیوز سوشل میڈیا پر پھیلنے لگیں، کورونا وباء کے دوران ہر آدمی حکیم، ڈاکٹر اور ماہر بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیک نیوز کو پبلش اور نشر کرنے میں صحافی برادری شامل رہی لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے صحافیوں کی کوئی خاص تربیت نہیں ہوئی نہ حکومت کی جانب سے کوئی ٹریننگ کے لیے اقدامات اُٹھائے گئے۔
صحافی حضرات کورونا کی پہلی لہر کے دوران بہت سے مشکلات سے دوچار رہے اور پہلی صف میں خدمات سرانجام دینے کی وجہ بہت سے نقصانات اُٹھائے لہذا صحافی برادری مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے کورونا کی دوسری لہر کے دوران صحافیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے تربیت دینے کے ساتھ ساتھ مزید ٹھوس اقدامات اُٹھائے تاکہ صحافی دوسری لہر کے دوران جانی نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔
دوسری جانب ملک میں کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف اور دیگر محکمہ صحت دیگر اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی اپنے ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔
ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ ہو یا قرنطینہ سنٹر، لاک ڈاؤن کے علاقے ہوں یا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سیل ہوئے بازار ہر جگہ پولیس اہلکار کڑی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، باجوڑ میں کورنٹائین سنٹر پر ڈیوٹی سر انجام دینے والا سب انسپکٹر عبدالعزیز بھی دوسروں کی جان بچاتے ہوئے خود کرونا وائرس کا شکار ہو گیا تھا اور وہی دن ان کی زندگی کے سخت ترین دن تھے۔
ضلع باجوڑ میں قرنطینہ سنٹرپر ڈیوٹی کرنے والا سب انسپکٹر عبدالعزیز جو دل کے بیمار ہونے کے ساتھ کورونا کا شکار ہوا تھا، خود بتاتے ہیں کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس کے بعد میں نے پانچ سٹنٹ لگائے، دو دفعہ دل کا آپریشن کر چکا ہوں، اس موقع پر بہت سے لوگ کہتے تھے کہ گزارہ کر کے اس وارڈ میں ڈیوٹی کے لئے نہیں آنا جس کے جواب میں میں کہتا کہ اگر ہم پولیس نہیں آتے تو کون آئے گا، ہم اس لئے آئے ہیں کہ عوام کو مسائل اور تکالیف کا سامنا نہ ہو، اگر آپ دیکھیں تو کورونا کی دوسری لہر بہت تیز ہے، لوگ اس کو ہلکا سمجھ رہے ہیں لیکن جس پر آ جائے اس کو پتہ چلت اہے کہ کتنی مصیبت و تکلیف ہوتی ہے، اللہ تمام مسلمانوں کو اس سے بچائے۔
خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے اب تک عبدالعزیز کی طرح چھیاسٹھ پولیس اہلکار متاثر ہوئے ہیں اور جن میں چار پولیس اہلکار جاں بحق بھی ہوئے، جس طرح ڈاکٹرز اور نرسسز اس وائرس کی روک تھام کیلئے حفاظتی سامان نہ ہونے کے گلے شکوے کرتے ہیں اسی طرح پولیس اہلکار بھی سامان کے ساتھ ساتھ مناسب تربیت نہ ملنے کے بھی گلے شکوے کرتے ہیں۔https://www.youtube.com/watch?v=E4UMna1wqys
باجوڑ میں ڈیوٹی سر انجام دینے والا ایک اور پولیس اہلکار محمد طیب کا کہنا ہے کہ وہ خود کوشش کرتا ہے کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اس وائرس کے حوالے سے کچھہ نہ کچھ معلومات حاصل کریں، اب جو کورونا کی دوسری لہر شروع ہو چکی ہے وہ بہت تیز اور سخت ہے، ہم اپنی احتیاط کرتے ہیں، جو لوگ ڈی سی آفس میں داخل ہوتے ہیں ان کو ماسک استعمال کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اپنی حفاظت خود کرتے ہیں، ”اس وباء سےخود کو بچائیں کیونکہ مجھے خود کورونا وائرس ہوا تھا اور مجھے پتہ ہے کہ کورونا وائرس کتنی خطرناک اور تکلیف دہ بیماری ہے۔”
دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ شہزاد کوکب نے کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ فورسز کی قربانیوں کو سراہا، کہتے ہیں کہ صرف ضلع باجوڑ میں ہمارے نو اہلکار کورونا وائرس کے شکار ہوئے تھے، یہاں پر سخت ڈیوٹیاں کورنٹائن سنٹرز، ہسپتال اور سمارٹ لاک ڈاؤنڈ کے مقامات پر ہوتی ہیں، جب بھی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن یا محکمہ صحت کی طرف سے جہاں بھی لاک ڈاؤن کا ہمیں کہا جاتا ہے وہاں پر ہمارے پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں، محکمہ صحت والے جو کمپین چلاتے ہیں اور جو احکامات دیتے ہیں ہمارے پولیس کو بھی وہی تربیت اور ٹریننگ دی جاتی ہے، پھر اسی کے مطابق ہمارے پولیس اہلکار انہی احکامات پر عمل دارآمد کراتے ہیں، حفاظتی تدابیر کے چاٹ ہر تھانے میں آویزاں کئے گئے ہیں، پولیس سب سے زیادہ مستعد ہے کیونکہ ڈاکٹرز کے بعد دوسری صف میں یہی پولیس کھڑے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ کا مزید کہنا ہے کہ پولیس کے لئے طاقت کے زور پر عوام کو سماجی فاصلوں پر مجبور نہیں کیا جا سکتا یا دوسرے حفاظتی اقدامات یقینی بنانا مشکل ہے کیونکہ اس مد میں عوام الناس کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا ضروری ہے۔