چوموس تہوار، کیلاشی عوام خصوصاً خواتین کیلئے خوش آئند کیوں؟
نبی جان اورکزئی
ضلع چترال کی ثقافت اور سیاحت کیلئے مشہور اور مخصوص علاقے وادی کیلاش میں گذشتہ ہفتے کیلاش قبیلے کے بڑے مذہبی تہواروں میں سے ایک، چوموس، پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا جس میں اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
چوموس تہوار گذشتہ سال عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکسان میں بھی لاک ڈاؤن و دیگر حکومتی پابندیوں کے باعث منسوخ کر دیا گیا تھا جس سے وادی کے عوام خصوصاً خواتین متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکیں۔
مقامی صحافی گل حماد فاروقی نے چوموس کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضلع چترال بالخصوص وادی کیلاش کی اکثریتی آبای کا معاش و روزگار سیاحت سے وابستہ ہے، خصوصاً خواتین اپنے فن و ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے گھرانے کی آمدن میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں، ”سیاحت کی معطلی کا مطلب روزگار کی بندش ہے۔”
کورونا وباء سے دنیا بھر اور ملک کے باقی حصوں کی طرح وادی کیلاش بھی کورونا کی وجہ سے سخت متاثر ہوا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحت سے وابستہ ہے جو کہ اس سال کورونا کی زد میں ہے، کورونا کی وجہ سے سیاحت پر لگنے والی پابندی نے پہلے پسماندہ علاقہ کیلاش کو مزید مسائل سے دوچار کر دیا ہے اور لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کیلاش کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو خیبر پختونخوا کے چترال ضلع میں آباد ہے اور کیلاشی زبان بولتا ہے جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ ان کی ثقافت مقامی مسلم آبادی سے ہر لحاظ سے بالکل مختلف ہے اور اس ثقافت کو دیکھنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں سے ہر سال سیاح بڑی تعداد میں کیلاش وادی میں آتے ہیں۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کیلاش قبیلے کے حقوق کیلئے کام کرنے والی شاعرہ بی بی نے بتایا کہ اپنی ثقافت کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر مشہور کیلاش قبیلہ کو دنیا بھر میں پھیلنے والے وباء کورونا نے مزید تاریکی میں دھکیل دیا ہے کیونکہ کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے مذہبی اور ثقافتی تہوار چیلم جوش اور چوموس میں اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی اشیاء کو یہاں آئے ہوئے پاکستان سمیت غیرملکی سیاحوں پر بیچتے ہیں جس سے وہ اپنا گزر بسر کرتے ہیں لیکن اس سال کورونا کی وجہ سے حالات کچھ مختلف ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہاں کے لوگوں کا سورس آف انکم یعنی آمدن کا واحد ذریعہ سیاحوں پر منحصر ہے، چونکہ رواں سال سیاحت پر لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے وادی کیلاش میں اس طرح ٹورسٹ نہیں آئے جس کی وجہ سے بیشتر مقامی لوگوں کے معاش پر برے اثرات پڑے ہیں۔
شاعرہ بی بی کہتی ہیں کہ ان خواتین نے اپنے مخصوص تہواروں کیلئے دستکاری کی بہت سی اشیاء بنائی تھیں لیکن سیاحوں کے نہ انے کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہیں بیچ سکیں۔
ایک مختاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کورونا کی وجہ سے شعبہ سیاحت پر پابندی کی وجہ سے سیاحت کو تقریباً بارہ ارب سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے اور حکومتی اندازے کے مطابق 56 ہزار سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے گل حماد فاروقی نے بتایا کہ کیلاش قبیلے کے تہواروں کیلئے سیاحوں پر پابندی کی وجہ سے نہ صرف کیلاش قبیلے کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس کا اثر پورے چترال پر پڑا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کیلاش قبیلہ سال میں دو تہوارے مناتا ہے، ایک کو چوموس کہتے ہیں جو کہ سردیوں میں ہوتا ہے اور دوسرا جو کہ گرمیوں میں مناتے ہیں اس کو چیلم جوش کہتے ہیں، ”کیلاش میں چالیس سے زیادہ ہوٹلز ہیں اور اس طرح پورے چترال میں دو سو سے زیادہ ہوٹلز ہیں جو کہ کرونا کی وجہ سے سیاحت پر لگائے جانے والی پابندی کی وجہ سے پورے سال سے بند پڑے ہیں، یہی ہوٹلز کیلاش فیسٹولز کیلئے بنائے گئے ہیں۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ پھچلے سال ایک اندازے کے مطابق کیلاش فیسٹولز کو ایک لاکھ سے زیادہ ٹورسٹ آئے ہوئے جو ان ہوٹلوں کیلئے معاش کا ذریعہ تھے، اس طرح زیادہ رش ہونے کی وجہ سے ہوٹلز کم پڑ گئے تھے اور بہت سے سیاحوں نے اپنے ٹینٹ بھی لگائے تھے۔
وزیر اعلی کے مشیر برائے اقلیتی امور وزیر زادہ، جن کا خود بھی تعلق کیلاش قبیلے سے ہے، کہتے ہیں کہ رواں سال کیلاش قبیلے کا سب سے بڑا مذہبی تہوار کورونا کی وجہ سے متاثر نہیں ہوا، اگرچہ علاقہ کیلاش میں کورونا کے زیادہ مثبت کیسز بھی نہیں ہیں۔
وزیر زادہ کہتے ہیں کہ کورونا نے قبیلے کو بہت سے مشکلات سے دوچار کیا ہے لیکن حکومت کے احساس پروگرام کے تحت علاقے کے نناوے فیصد لوگوں کی مدد کی جا چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وادی کیلاش میں پہلی لہر کے دوران بھی کورونا نہ ہونے کے برابر تھا اور بہت کم لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے، اب کرونا کی دوسری لہر میں بھی وادی کیلاش میں کورونا کافی حد تک کنٹرول ہے اور اب تک کیلاش میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
وزیر زادہ نے مزید بتایا کہ اب اقلیتوں کے تمام مذہبی اور روایتی تہوار کورونا کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے وضع کردہ ایس او پیز کے مطابق منائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا باقاعدہ آغاز آنے والے کرسمس سے کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ چترال میں ہزاروں سالوں سے رہائش پذیر کیلاش قبیلہ اپنی مخصوص روایات اور ثقافت کے لیے پوری دنیا میں مقبول سمجھا جاتا ہے اور یہ قبیلہ صرف چند ہزار آبادی پر مشتمل ہے۔