خیبر پختونخوا کی ثقافت کے ماند پڑتے رنگ، ”اشر” جن میں سے ایک ہے!
بشریٰ محسود
خیبر پختونخوا کے ثقافتی رنگ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خوشگوار اور رنگین ہیں، اس کے ایک ثقافتی رنگ کو ”اشر” (پنجاب میں اس عمل کو ونگار کہتے ہیں، مضمون میں لفظ اشر ہی استعمال کیا جائے گا) کا نام دیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ گندم، گھاس اور مکئی کی کٹائی مل کر کرتے ہیں اور اجتماعی کٹائی کو اشر جبکہ اشر کرنے والوں کو ”اشریان” کہتے ہیں جن کا جوش بڑھانے کے لئے ڈھولک اور "توری” (شہنائی یا بانسری) بھی بجائی جاتی ہے اور یوں ان میں مقابلے کا رجحان پیدا اور ان کے جوش و خروش میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اشریان اس دوران اپنے مخصوص انداز کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف قسم کے نعروں اور آوازوں سے اشر کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں۔
گھاس، گندم یا مکئی کی کٹائی کے لئے اشر بلایا جاتا ہے، یہ عمل اجتماعی تعاون کی بہترین مثال ہے۔ اشر کو دیکھنے کے لئے ارد گرد کے علاقوں سے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اشر کے دوران لوگوں کو دال ماش، گھی اور شکر کے ساتھ پرتکلف خوراک دی جاتی ہے جس کی لذت بے مثال ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے یہ رجحان اب کم ہو گیا ہے، لوگ مزدوروں سے کٹائی کروا لیتے ہیں لیکن کئی جگہوں پر اب بھی یہ ثقافتی عمل یا روایت زندہ ہے۔
میری ننھیال کے لوگ جاگیردار تھے تو وہ بہت زور و شور سے اشر کا اہتمام کرتے تھے، بغیر اجرت کے لوگوں کو بلایا جاتا تھا، عورتیں بھی الرٹ ہوتی تھیں، بہت سی خواتین مل کر تنور پر اکٹھی ہوتی تھیں، مکئی کی روٹی پکاتیں اور اس طرح اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتی تھیں۔
وہاں پر ڈھولک اس لیے بجائی جاتی تھی کہ ایک تو ڈھولک کی تھاپ پر ناچ گانے سے وہ جوش میں آ جاتے تھے اور جوش میں آ کر تیز تیز گھاس کاٹ لیتے تھے، کچھ لوگ ناچنے لگ جاتے اور دوسرے لوگ گھاس کاٹتے اور ہنسی خوشی کام ہو جاتا تھا۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان کیلئے شوروغل میں کام کرنا آسان ہوتا ہے اور اس کے لئے دور دور سے شائقین آتے جاتے ہیں کہ وہاں ڈانس بھی دیکھ لیں گے اور ان کا ہاتھ بٹا کر تھوڑا ان کو آرام بھی دے دیں گے۔ گھاس کاٹنے والے ناچنے لگ جاتے اور ناچنے والے گھاس کاٹنے لگ جاتے۔ ان کو کھانا بھی بہت اچھا دیا جاتا تھا کیونکہ یہ بہت مشقت والا کام ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور بلندی پر جا کر وہاں سے گھاس کاٹی جائے۔ دوپہر کو کھانے کا بہت اچھا انتظام ہوتا تھا، بہت سے تنور جلتے، مکئی کی روٹی اور اس کے ساتھ دہی، لسی اور دودھ اور مرغی کا سالن وغیرہ بھجوایا جاتا تھا۔ یہ کھانا وافر مقدار میں بھجوایا جاتا تھا اور لے جانے والے بھی زیادہ لوگ ہوتے تھے جو وہاں جا کر ان کو کھانا بھی دیتے تھے اور کٹائی میں ان کی مدد بھی کرتے تھے۔
پھر شام کو تھک ہار کر جب یہ کٹائی ختم ہو جاتی تھی تو ان لوگوں کے لیے دیسی گھی گرم کر کے بھٹی کے کوزوں میں ڈالا چاتا تھا، ہم سوال کرتے تھے کہ یہ کوزوں میں کیوں ڈالا جاتا ہے تو یہ کہتے تھے کہ ایک تو یہ گرم رہتا ہے اور دوسرا اس کی جو نلکی ہوتی ہے اس سے ڈالنے میں آسانی رہتی ہے، تھوڑی نمکین دال بھی بتائی جاتی تھی جو وہ سلور کی بڑی پلیٹ میں ڈال کر کھاتے تھے اور بعض لوگ پی بھی لیتے تھے، بہت مزہ آتا تھا، بہت رونق ہوتی تھی شادیوں کی طرح اور یہ اشر باری باری ہوتا تھا۔ آج ایک کے پہاڑوں پر اشر تو کل کو کسی دوسرے کی پہاڑی پہ، جو لوگ زیادہ غریب ہوتے تھے تو وہ لوگ ڈھولک نہیں لے کے جاتے تھے لیکن ان کے ساتھ بھی سب لوگ تعاون کرتے اور اشر کا پروگرام بناتے۔
یہ روایت اب بہت کم ہو گئی ہے، گاؤں میں جس نے گھاس کی کٹائی کرنا ہوتی ہے تو وہ گھر جا کر سب کو دعوت دیتے ہیں، جب سب اکٹھے ہوتے ہیں تب ڈھول کی تھاپ پر مقامی ڈانس کیا جاتا ہے اور جوش و خروش سے گھاس کی کٹائی کی جاتی ہے۔ یہ سال کے آخری یعنی آٹھویں مہینے میں عموماً ہوتا ہے۔
آج یہ روایت مانسہرہ کے کے علاوہ تورغر، تناول شیروان وغیرہ میں آج بھی زندہ ہے۔