لنڈی کوتل میں کورونا ایک ڈرامہ ہے، معیشتوں کو گرانے کا بہانہ ہے!
محراب شاہ آفریدی
چین کے شہر ووہان سے دسمبر 2019 میں نمودار ہونے والا کورونا وائرس رواں برس 11 مارچ کو عالمی وبائی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اب تک اس مہلک وائرس نے 67 ملین سے زائد لوگوں کو شکار کیا ہے جبکہ 1.5 ملین سے زائد لوگ اس مہلک وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ احتیاطی تدابیر اپنانے والوں کو اس وائرس کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیابی ملی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 43 ملین لوگ اس وائرس کے شکار ہونے کے بعد صحت یاب بھی ہو گئے ہیں۔ پاکستان اس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا کر رہا ہے، ماہرین صحت کے مطابق اس بار زیادہ جانیں جانے کا خدشہ ہے۔
پاکستان نے کرونا کی پہلی لہر کا مقابلہ بڑے اچھے انداز سے کیا اور یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت کم شرح میں اموات ہوئیں، پہلی لہر میں لوگوں نے حکومتی اداروں اور بالخصوص این سی او سی کی جانب سے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے جاری کردہ ہدایات پر عمل کیا اور ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے پاکستان کرونا سے بچاؤ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کامیاب ہوا تاہم این سی او سی اور ماہرین صحت کے مطابق لوگوں کے رویے میں تبدیلی کی وجہ سے کرونا نے دوبارہ اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔
کرونا کی وجہ سے پاکستان میں اب تک اموات کی تعداد آٹھ ہزار تین سو اٹھانوے ہے جبکہ 356542 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اب تک پاکستان میں کرونا کیسز کی مجموعی تعداد 420294 بتائی جاتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاوؤ کی اگر ایک وجہ لوگوں کا احتیاطی تدابیر نہ اپنانا ہے تو وہاں دوسری طرف دیہی علاقوں میں یہ تصور بھی پایا جاتا تھا کہ یہ معیشتوں کو گرانے اور ان میں توازن پیدا کرنے کی ایک چال ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے مذاق سمجھا اور یہی غلط فہمی کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ جب تک کورونا وائرس کی ویکسین مارکیٹ میں نہیں آتی تب تک اس کا علاج ہم کو خود ہی کرنا ہو گا اور انتہائی آسانی کے ساتھ ہم ہیلتھ پروفیشنلز کے احکامات پر عمل کر کے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے قبائلی ضلع خیبر کے لوگ نہ صرف اس کو سنجیدہ نہیں لیتے بلکہ کورونا کو ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں، اور تو اور کچھ لوگ تو اس کو بیرونی امداد یعنی ڈالروں سے بھی منسوب کر دیتے ہیں۔
بغیر فیس ماسک کے لنڈی کوتل کے تجارتی بازار میں ہجوم میں گھومنے والے شکیل نامی ایک شخص سے جب فیس ماسک، کورونا اور ایس او پیز بارے پوچھا گیا تو انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا سب گپ شپ ہے،
کپڑوں کی ایک دکان پر گاہگ اور دکاندار سب خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آئے اور کہنے لگے کہ یہ تو عام نزلہ، زکام اور کھانسی ہے جس کا ہم دہائیوں سے ہر موسم میں سامنا کرتے ہیں اس لئے ہم کورونا سے نہیں ڈرتے ہیں۔
ٹرک اڈوں، قہوہ خانوں، بس اسٹینڈ اور بے شمار پبلک مقامات پر لوگوں کا اسی طرح کا رویہ نظر آتا ہے، وہ نہ تو خیال رکھتے ہیں نہ کورونا کو مانتے ہیں اور نہ ہی اس سے ڈرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے حکومتی پلان اور ایکشن نے ان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ اب ایک حقیقی وائرس، جس نے دنیا میں لاکھوں اور پاکستان میں ہزاروں انسانوں کی جان لے لی ہے، کو بھی نہیں مانتے اور جانے انجانے میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، ویکسین کی آمد سے پہلے لوگوں کے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، عوام کی سوچ کو مثبت بنانا ہے، ان کو کورونا کے وجود کو ماننے پر آمادہ کرنا ہے اور ساتھ ہی ان کو اپنی شہری، معاشرتی اور اسلامی ذمہ داریاں بتانی ہیں بصورت دیگر ویکسین سے پہلے ہی وائرس کا پھیلاو بڑھ سکتا ہے۔
محکمہ صحت اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے، ان کو اب بند کمروں سے نکلنا پڑے گا اور لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنا پڑے گا جس کے لئے مناسب پلان بنانا ہو گا اور سچی کہانیوں، تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے لوگوں کو کورونا کی تباہی دکھانی ہو گی تاکہ ان کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ یہ حقیقت ہے اور اس وائرس کو سنجیدہ لیا جائے ورنہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو اتنی دیر ہو جائے گی کہ پھر ہمارے ماننے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
قبائلی علاقوں میں بھی کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ لنڈی کوتل اور تحصیل جمرود میں بھی اس سے اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ لنڈی کوتل کی اگر بات کی جائے تو پاک افغان بارڈر طورخم کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے یہاں اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کا زیادہ خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کیونکہ پہلی لہر میں جہاں 16 مارچ کو پاکستان نے پاک افغان بارڈر طورخم پر تجارت اور آمدورفت کو بند کیا وہاں پاکستان میں مقیم افغان باشندے بھی پھنس گئے اور ہفتے میں ایک دن ان کو اپنے ملک جانے کیلئے لنڈی کوتل میں ٹھرنا ہوتا تھا۔
یوں ساتھ آٹھ ہزار لوگ ہر ہفتے ملک بھر سے آ کر لنڈی کوتل میں اکٹھے ہوتے تھے جبکہ این سی او سی، ایف ڈی ایم اے نے یہاں پر تین چار قرنطینہ سنٹر بھی قائم رکھے جہاں پر افغانستان سے آنے والے پاکستانیوں کو قرنطینہ میں رکھا جاتا تھا اور اس طرح لنڈی کوتل میں کیسز آنے پر بھی ان کو قرنطین کیا جاتا تھا لیکن اس وبائی صورتحال میں یہاں کے لوگوں نے تھوڑی بہت احتیاطی تدابیر اپنا کر کرونا کو مات دی، حکومت کی جانب سے جب کرونا کے خلاف جنگ جیتنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو لوگوں نے بھی احتیاطی تدابیر کی پرواہ کرنا چھوڑ دی حالانکہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور اس طرح پاکستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان، ایران اور بھارت میں کرونا نے لوگوں کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا جبکہ حکومت پاکستان نے یہ غلطی کر کے لوگوں کو کھلی چھوٹ دی جس کی وجہ سے کرونا کی دوسری لہر نے پاکستان کو دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح کرونا کیسز کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
قبائلی اضلاع میں جہاں کرونا کیسزز میں تیزی دیکھنے کو ملی لیکن وہاں اب بھی لوگ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے ہیں اور یہ باعث تشویش ہے۔
اس حوالے سے جب اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل محمد عمران یوسفزی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی دوسری لہر میں وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کے دیگر اضلاع کی طرح طورخم بارڈر پر بھی حفاظتی اقدامات اٹھا لئے گئے ہیں، طورخم بارڈر پر آنے والے ہر فرد کی مناسب چیکنگ کی جاتی ہے جبکہ بعد میں ان کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے متعلقہ تمام سٹاف کی سخت مانیٹرنگ کرتے ہیں کیونکہ دیگر اضلاع کی بہ نسبت یہ حساس پوائنٹ ہے جہاں ہزاروں لوگ روزانہ ملک میں داخل ہوتے ہیں، اسی طرح طورخم بارڈر پر واقع پاک افغان دوستی ہسپتال میں بھی تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔
عمران یوسفزی نے بتایا کہ لنڈیکوتل میں ان کے جامع مساجد کے خطیبوں سے بھی رابطے ہیں اور ان کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا جس میں انہیں عوام پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور بالخصوص ماسک پہننے پر زور دینے کا کہا گیا تھا تاہم زیادہ تر لوگ اب بھی ماسک کے استعمال سے گریز کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر خدانخواستہ حالات خراب ہوتے گئے تو ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر آپشنز پر بھی غور کرے گی۔
تحصیل لنڈی کوتل میں واقع ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کرونا کی پہلی لہر کے دوران ایک بڑا قرنطینہ سنٹر اور آئسولیشن وارڈ قائم کیا گیا تھا جہاں سینکڑوں افراد کو آئسولیشن وارڈ میں صحت یابی نصیب ہوئی اور اس سنٹر کو نان فنگشنل کر دیا گیا تھا تاہم اب اس وارڈ کو دوبارہ کھول دیا گیا۔
جب اس حوالے سے ایم ایس ڈاکٹر نیک داد آفریدی سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل طورخم بارڈر کے ساتھ قریب ہے اس لئے انہوں نے سٹاف کو دوبارہ الرٹ کر دیا ہے اور 150 بیڈز پر مشتمل وارڈ کو تمام تر ضروری لوازمات کے ساتھ تیار کر دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکے۔
نیک داد آفریدی نے کہا کہ پہلی لہر کا مقابلہ بڑے اچھے انداز سے کیا اور لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کر کے کرونا کی پہلی لہر کو شکست دی البتہ آخر میں لوگوں نے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دیں اور بالخصوص ماسک کے استعمال سے گریز کیا جس کی وجہ سے مسائل دوبارہ بڑھنا شروع ہو گئے، اس کے لیے عوام کو پہلے سے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھو لینا چاہیے، ساتھ ہی ماسک کا استعمال لازمی کرنا ہو گا۔
نیک داد آفریدی سے جب پوچھا گیا کہ قبائلی لوگ اب بھی کرونا وائرس کو سازش قرار دے رہے ہیں اور اسے مذاق سمجھتے ہیں، اس لئے ان کا حل کیا یے تو انہوں نے جواب میں بتایا کہ اس کے لیے موثر آگاہی مہم چلانا ضروری ہے اور بالخصوص اس میں علماء کرام کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ وائرس کی دوسری لہر کی روک تھام ہو سکے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں ٹیسٹ کی شرح نہ ہونے کے برابر جبکہ یہاں پر لوگوں میں کرونا کی علامات پائی جاتی ہیں، یہ امر سب کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے اس لئے یہاں پر آگاہی کا ایک موثر پروگرام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ایس او پیز پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔
اس حوالے سے میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کرنا ہے تاکہ اس وائرس کی روک تھام کو ممکن بنایا جا سکے کیونکہ قبائلی اضلاع میں اگر لوگ بے اعتمادی کا شکار رہے تو یہاں بھی خدانخواستہ فرانس، اٹلی اور امریکہ جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ وائرس کسی بوڑھے اور بچے وغیرہ کی تمیز نہیں کرتا جبکہ اس سے بچاؤ صرف یہی حفاظتی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر ہم دوبارہ پہلی لہر کی طرح کامیاب دفاع کر سکتے ہیں جس کی ساری دنیا نے تعریف کی اور اگر اس میں ہم نے غفلت برتی تو نہ صرف جانی نقصان ہو گا بلکہ لاک ڈاؤن کے نفاذ سے ہماری معیشت پر بھی بہت برا اثر پڑے گا جس کا بالواسطہ اثر ان قبائلی غریب عوام پر پڑے گا۔