”آپ جائیں خود کو پنجرے میں بند کر دیں اور کہیں کہ میرا خیال حکومت رکھ لے گی”
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے چڑیا گھر سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر توہین عدالت کی کارروائی ہی چاہتے ہیں تو ہم شروع کر دیتے ہیں جس پر وکلاء صفائی نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی اور چیئرپرسن وائلڈ لائف کی نیت توہین عدالت کی نہیں تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ذمہ داری دی لیکن انہوں نے دلچسپی نہیں ل،ی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اْلٹا اس عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک نوٹیفکیشن یہاں پیش کر کے کہا گیا وائلڈ لائف بورڈ کی تشکیل نو ہو چکی ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور وائلڈ لائف بورڈ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں جو مرضی فیصلے کریں لیکن ان فیصلوں سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قبول نہیں، اس عدالت نے کبھی بھی جانوروں کو دوسرے چِڑیا گھر منتقل کرنے کا نہیں کہا، اپنے طور پر وزارت موسمیاتی تبدیلی نے نئے فیصلے کرنے کی کوشش کی، گزشتہ روز عدالت میں سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی اور چیئرپرسن وائلد لائف کا طرز عمل مناسب نہیں تھا، عدالت نے بار بار کہا جانوروں کو متعلقہ پناہ گاہوں میں منتقل کریں جس طرح دو شیروں کی جان گئی وہ انتہائی شرمناک ہے، ان دو شیروں کو دوسرے چڑیا گھروں میں منتقل کرنا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی تھی، میئر، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور وائلڈ لائف کے جھگڑے کے باعث یہ سب ہوا، اسی لئے کہا تھا وہ عدالتی احکامات کو ٹھیک سے پڑھ کر آئیں۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران چیئرپرسن وائلڈ لائف نے کہا عدالتی آرڈر میں اگر صرف اْردن کا ذکر ہو تب معافی مانگیں گی، کاون ہاتھی پورے ملک کے لئے فخر کا باعث بنا تو کریڈٹ وزیراعظم کو جاتا ہے جس پر وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ کاون کا کریڈٹ اس عدالت کو جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت نے کوئی کریڈٹ نہیں لینا۔
چیئرپرسن وائلڈ لائف نے عدالت کو بتایا کہ ہم ریچھوں کا یہاں خیال رکھ سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کو بھی اللہ نے آزاد پیدا کیا تھا، جائیں خود کو پنجرے میں بند کر دیں پنجرے میں بند رہ کر کہیں کہ میرا خیال حکومت رکھ لے گی، آپ جو بات ابھی کر رہی ہیں وہ بھی اس عدالت کے فیصلے کیخلاف ہے، ہم خود ہی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریچھوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کا آخری موقع دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیر تک فیصلہ کریں کیا کرنا ہے ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔