باجوڑ کے نوجوان طبقے میں مقبول مولانا خانزیب کون ہیں؟
سی جے مصباح الدین اتمانی
انسان ہمیشہ اپنے کردار سے عظیم بنتا ہے۔ کردار کے بغیر کسی کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہونا بہت چھوٹا فن ہوتا ہے۔ کردار کی عظمت کی تاثیر ہی درحقیقت انسانیت کی معراج ہے۔
عمومی طور پر جب کوئی کام کا بندہ مرتا ہے تو پھر اس کی موت کے بعد ہم اس کی تعریفوں میں لگ جاتے ہیں، غم کے آنسوں بہاتے ہیں مگر موت کے بعد وہ تعریفیں اپنی جگہ مگر زندگی میں، اپنی سوسائٹی میں یا کسی بھی شعبے میں خدمات سر انجام دینے والے کسی صاحب کردار شخصیت کی زندگی میں ہم اس کے کام کی عظمت کو تسلیم کیوں نہ کریں؟ ہم کسی کی سماجی، سیاسی اور قومی خدمت کا اعتراف کرنے کی روایت کیوں پیدا نہیں کرتے؟ کیا یہ ہمارے سماجی رویوں کا انحطاط نہیں ہے کہ ہم صرف مرنے کے بعد کسی کی شخصیت کو عظیم قرار دینے کی روایت میں پھنس چکے ہیں۔ اگر ہم یہ عہد کریں کہ جو کوئی بھی سوسائٹی میں صاحب کردار شخصیت ہو اس کو سراہنا ہے تو یقین جانئے کہ اس سے ہم عظیم ہو جائیں گے اور اس صاحب کردار کی صلاحیتوں میں مزید نکھار کا باعث بنیں گے۔
میں آج بات کرتا ہوں صوبہ پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کی جو نہ تو کسی خان نواب کے خاندان میں پیدا ہوئے اور نہ ہی کسی سرمایہ دار جاگیردار گھرانے میں مگر نوجوان طبقے کو اپنی انتہائی مثبت علمی سوچ اور اپنے کردار اور علمیت سے متاثر کرنے والی یہ شخصیت مولانا خانزیب کی ہے۔
کوشش کروں گا کہ ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کو آپ کے سامنے لا سکوں جو میں خود دیکھ چکا ہوں اور مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس سے آگاہ کروں۔
مولانا صاحب باجوڑ کی تحصیل ناواگئی میں پیدا ہوئے ہیں، میٹرک تک تعلیم ناواگئ ہائی سکول سے حاصل کرنے کے بعد درس نظامی سے 1999 میں فراغت حاصل کر چکے ہیں۔ مولانا صاحب باجوڑ میں آباد تھرکانڑی قبیلہ کی ذیلی شاخ سالارزئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد زمانہ قدیم سے چارمنگ اور ناواگئی میں رہائش پذیر رہے ہیں جبکہ پشاور میں متھرا کے قریب ڈھائی سو گھرانوں پر مشتمل ان کی برادری کا ایک پورا گاؤں شیخ کلی کے نام سے موجود ہے۔
مولانا صاحب اے این پی کے مرکزی رہنما شیخ جھانزادہ کے چھوٹے بھائی ہیں، دو ہزار آٹھ میں جب باجوڑ میں بدامنی کے حالات بنے اور جنگ وجدل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر علاقے سے نقل مکانی ہوئی تو ان حالات میں بھی مولانا صاحب اپنے علاقے میں موجود رہے اور اپنی استطاعت کے مطابق علاقے کے امن اور خیر کی خاطر ان مشکل حالات میں بھی جرگے منعقد کرتے رہے جن کا واحد مقصد جنگ کی تباہ کاری سے اپنے علاقے کو بچانا تھا۔
ایک ملاقات میں مولانا صاحب نے بتایا کہ اس وقت سب سے بڑی بہادری اپنی جان بچا کر اپنے خاندان کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنا تھا مگر اپنے بڑے بھائی شیخ جھانزادہ کے ساتھ ان حالات میں یہ طے کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے اپنے علاقے کو کسی حالت میں بھی چھوڑنا نہیں کیونکہ اگر ہم علاقے سے نکل گئے تو پھر یہاں جنگی ماحول کو روکنا ناممکن ہو جائے گا جس کی تباہ کاری کی زد میں پورا علاقہ آئے گا ”ہم نے تاریخ نہیں بننا بلکہ اس اعصاب شکن ماحول میں تاریخ رقم کرنا ہے۔”
آپریشن شیردل شروع ہونے سے چند روز قبل مولانا صاحب کے گاؤں میں فوجی جوانوں پر ایک دھماکہ ہوا، اس کے بعد مارٹر گولے فائر کئے گئے۔ کئی گولے مولانا صاحب کے گھر پر گرے اور ان کے گھر کی تین خواتین شدید زخمی ہوئیں۔ اس خوف و ہراس کے ماحول میں بھی وہ علاقے سے نہیں نکلے۔
مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کچھ فوجی جوانوں کو طالبان نے قیدی بنایا، علاقے میں حالات بگڑ رہے تھے، مشران نے کہا کہ ہمیں ان جوانوں کی رہائی کیلئے طالبان کے پاس ایک جرگہ بھیجنا چاہیے جو کہ انتہائی مشکل اقدام تھا مگر علاقے کے امن کی خاطر یہ لازم تھا۔ جب ہم ان کے پاس جرگہ لے کر گئے تو ان جوانوں کو جرگہ کے حوالے کر کے چھوڑ دیا گیا۔
جب باجوڑ میں جنگ چھڑ گئی تو 2009 کے دوران باجوڑ ناواگئ بازار کے صدر اور شاعر محمد اسلام ارمانی کو اغواء کر کے قتل کیا گیا جبکہ ان کی نماز جنازہ پڑھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی اور علاقے کے تمام مولوی حضرات کو جنازہ نہ پڑھنے کا کہہ دیا گیا۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ارمانی ہمارا دیرینہ ساتھی تھا، ان کے قتل سے تمام علاقے کا ماحول سوگوار تھا، جب ہم جنازہ میں شریک ہوئے تو جنازہ میں تاخیر ہوئی، اس اثناء میں اسلام ارمانی کا باپ میرے پاس خاموشی سے آیا، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، کہنے لگے کہ مولانا صاحب! ارمانی کا جنازہ پڑھنے پر پابندی لگائی گئی ہے، کوئی مولوی حضرات حاضر نہیں، آپ اگر پڑھائیں تو ٹھیک نہیں تو ارمانی شہید کو بغیر جنازہ کے دفنا دیں گے۔
مولانا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے پتہ تھا کہ اس جنازہ کے پڑھنے کے عواقب کیا ہوں گے مگر اپنے ایمان اور پشتو کی خاطر میں نے اسلام ارمانی کی جنازہ پڑھائی اور پھر مجھے کن مشکلات سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے۔
مولانا صاحب کے گھر پر شدت پسندوں کی جانب سے دو بار بڑے تباہ کن میزائل داغے گئے جن میں سے مولانا صاحب ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے دس فٹ اوپر درخت پر لگ کر پھٹ گیا اور ایک ہفتے تک میرے کان بند تھے ؎۔ آج تک مولانا صاحب اور ان کے گھر والوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے مگر ان تمام تر مشکلات کے باوجود وہ عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ آج بھی علاقے کے امن وامان کے حوالے سے انتہائی مشکل حالات ہیں۔
مولانا صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، وہ نہ صرف ایک مذہبی عالم ہیں بلکہ وہ ایک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فعال سیاسی ورکر بھی ہیں، ایک قومی شخصیت ہیں، علاقے کے جرگوں میں شامل ہوتے ہیں اور علاقے کے رسم و رواج سے انتہا درجے کی واقفیت رکھتے ہیں اور اپنے علاقے کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہیں، وسیع النظر اور صاحب علم و شعور ہیں، لکھنے کے ہنر کے ساتھ ایک فصیح و بلیغ مقرر بھی ہیں، علاقے کے ہر قومی مسئلے پر دلیل و دلیری کے ساتھ بلاجھجک آزادانہ بولتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب باجوڑ اور مومند کے قبائل کے درمیان سرحدی تنازعہ پیش آیا، قریب تھا کہ وہ انتشار ایک بڑی قبائلی لڑائی کی شکل اختیار کر جاتا، مولانا صاحب کے انتہائی جاندار کردار کی وجہ سے وہ مسئلہ افہام و تفہیم کے ساتھ جرگہ کے ذریعے حل ہوا۔
مولانا صاحب ایک قومی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوش مزاج بھی ہیں، ان کی صحبت میں گھنٹوں گزار کر بھی بندے کی پیاس نہیں بجھتی بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر انسان بہت کچھ سیکھ جاتا ہے، دوستی اور تعلق کو بڑی محبت سے نبھاتے ہیں۔ اب میں آتا ہوں مولانا صاحب کے اصل کارنامے کی طرف اور وہ ہے باجوڑ کی تاریخ پر ایک مستند ضخیم کتاب کی تصنیف۔
باجوڑ ایک تاریخی علاقہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے باجوڑ کی تاریخ کے حوالے سے ماضی میں بہت زیادہ کمی تھی، مولانا صاحب نے پشتو زبان میں کتاب تحریر کر کے پورے علاقے کے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی تاریخ کے حوالے سے ایک ایسا تحفہ دیا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
مولانا صاحب باجوڑ کے نوجوانوں میں انتہائی مقبول شخصیت ہیں، اپنے سوشل اکاؤنٹ پر علمی تحریروں کی شکل میں متحرک رہتے ہیں جبکہ روزنامہ شہباز اور پختون میگزین کے بھی مستقل لکھاری ہیں۔
مولانا صاحب کی شخصیت ہمارے پاس ان جنگی حالات میں ایک ذمہ دار اور تاریخی شخصیت کے طور پر بطورِ مثال کے موجود ہے اور میرے خیال میں یہ اس فساد کے زمانے میں خدا کی دین ہے، ہمیں قبائلی علاقوں کے حوالے سے صرف تشدد کے چہروں کے بجائے ایسے لوگوں کی نظر سے بھی دیکھنا چاہئے، ان کو ہائی لائٹ کرنا چاہئےجو صاحب قلم اور صاحب کردار ہیں، جنگ کے بجائے امن کی مثال اور نفرت اور تشدد کے بجائے پیار محبت اور خلوص کے پیکر ہیں۔ خدا کرے کہ ہمارے وطن میں ایسے لوگ ہزاروں برس جئیں۔ آمین!
آخر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ کلام مولانا صاحب اور ان کی اپنی سے محبت کے نام،
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔۔۔
آمین!