پشتونوں کی غمی خوشی، کیا حالیہ حالات انہیں بدل پائیں گے؟
طارق عزیز، عبد الستار
شانگلہ کے میرہ گاؤں کے ایک حجرے میں تقریبا 30 سے 40 افراد بیٹھے میت کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کر رہے ہیں اور اسی طرح میت کے گھر میں خواتین بھی دعا میں شریک ہیں۔
پشتون علاقے میں میت کے گھر اور حجرے میں تین دن تک فاتحہ خوانی کے لئے لوگوں کا آنا جانا معمول کی بات ہے لیکن پچھلے چند مہینوں میں اس معمول میں کورونا وبا کی وجہ سے ڈرامائی تبدیلی آگئی تھی۔
باقی شعبہ ہائے زندگی کی طرح کورونا وائرس نے پشتونوں کی اس قسم کی روایات کو بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔ پہلے جنازوں میں سینکڑوں لوگوں کی شرکت یقینی ہوتی تھی تو وبا کے دنوں میں یہ درجنوں اور بعض علاقوں میں خاندان کے چند افراد تک محدود رہ گئی تھی۔
شانگلہ کے اسی گاؤں سے تعلق رکھنےو الے نظیر احمد کے والد چند مہینے پہلے کورونا وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے جن کے جنازے میں میں گنتی کےچند افراد ہی شرکت کرچکے تھے اور روایات کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے ان کا سوم بھی نہیں ہونے دیا تھا۔
نظیر احمد نے افسوس کرتے ہوئے بتایا کہ والد کا جنازہ بشام میں ادا کیا گیا تھا جس میں صرف آٹھ لوگوں نے شرکت کی تھی، جنازے میں 8،10 بندے شریک ہونے کی وجہ سے انکے دل پہ کیا گزری اللہ ہی جانتا ہے، کیونکہ جب یہاں میرہ میں کوئی مرجائے تو اس کے جنازے میں اتنے ذیادہ لوگ ہوتے ہیں کہ جناز گاہ میں جگہ کم پڑجاتی ہے۔
کورونا وبا کی دوسری لہر بھی پھیل چکی ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ پہلے لوگ سماجی دوری پر عمل درآمد کرتے تھے لیکن اب ایسا نظر نہیں آ رہا جس کی مثال حالیہ شادیوں اور میتوں میں لوگوں کا جم غفیر جمع ہونا ہے۔ حجرے سمیت مختلف روایات دوبارہ بحال ہوگئے ہیں لیکن ثقافت کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔
پختون ثقافت میں ایک منفرد حیثیت رکھنے والی جگہ حجرہ پر کورونا وائرس کے اثرات مرتب ہونے کے حوالے سے میرہ گاوں کے ایک شخص وکیل خان کہتے ہیں، ‘عموما ہمارے علاقے اور معاشرتی مسائل حجرے میں زیربحث آتے ہیں، اب( کورونا کی وجہ سے) اسی طرح لوگ حجرے میں جمع نہیں ہوتے،حجرے کا حسن اس وباء میں آہستہ آہستہ ماند پڑگیا ہے’
دوسری جانب کورونا وبا نے غم کے ساتھ ساتھ خوشیوں اور شادیوں کے رنگ بھی پھیکےکئے ہیں۔ شانگلہ ہی کے عاصم حسین کہتے ہیں کہ انکی خواہش تھی کہ اپنی شادی دھوم دھام سے کرتے لیکن کورونا کی وجہ سے وہ خواہش ادھورا رہی۔ ‘ شادی کا دھوم دھام سے کرنے کا پروگرام تھا لیکن کورونا کی وجہ سے وہ شادی بہت سادگی سے کی’
عاصم نے کہا کہ پشتونوں کی شادیوں میں روایتی موسیقی، مہندی اور بارات وغیرہ ہوتے ہیں لیکن اسی وباء کی وجہ سے نا ولیمہ ٹھیک طرح سے ہوسکا، نہ مہندی کا پروگرام ہوا بغیر رسم و رواج کی شادی سادگی سے کی گئ۔
پشتونوں کے روایتی کھیلوں پر اثرات
ایک طرف اگر پشتونوں کی رسم ورواج پر کورونا کے اثرات مرتب ہوئے ہیں تو دوسری جانب اس وبا نے پختونوں کے روایتی کھیل بھی متاثر کئے ہیں اور اب وہ حجرے اور میدان جہاں پر یہ روایتی کھیل کھیلے جاتے تھے اب بہت کم نظر آتے ہیں۔
یوسفزئی پختونوں کے علاقوں میں قدیم روایتی کھیل ‘مخہ ‘( تیر کمان کے ذریعے نشانہ لگایاجاتاہے) کھیلاجاتا ہے لیکن وہ کوروناوبا پھیلنے کی ڈر کی وجہ سےاس سال وہ ٹورنمنٹ بھی منعقد نہیں ہوسکا۔
اس سلسلے میں روایتی کھیل مخہ کےصوبائی صدرامجد یوسفزئی نے بتایا کہ ہرسال پختونوں کے روایتی کھیل مخہ کے ٹورنمنٹ منعقد کئے جاتے ہیں اور پچھلے بیس سال سے اس کھیل کا مظاہرہ کیا جاتاہے لیکن اس سال کوروناوبا کی وجہ سے مخہ کے ٹورنمنٹ پر بہت برا اثر پڑا ہے اور یہ پختونوں کاقدیم روایتی کھیل ہے اور تحصیل کاٹلنگ میں اس کا ہر سال مظاہرہ کیا جاتا تھا اورپندرہ سے بیس دن تک یہ ٹورنانمنٹ جاری رہتاتھا ٹورنمنٹ کے دوران مقابلے کے وقت ہرشام کوشادی کی طرح خوشیوں کا سماں ہوتاتھا۔
امجد یوسفزئی نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مخہ کے کھلاڑی اس روایتی گیم اس سال نہ کھیلنے پرتشویش میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وبا میں لگائے گئے لاک ڈاون اب ختم ہوگئے ہیں اورکاروباری زندگی بھی بحال ہوگئی ہے تو روایتی کھیل مخہ کے ٹورنمنٹ کی بھی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ایک تاریخی اور روایتی کھیل دیہات سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ کھیلتے ہیں اور مخہ ٹورنمنٹ ان علاقوں میں ایک تفریحی میلے کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔
نہ صرف مخہ جبکہ اور بھی پختون کلچرکےکئی روایتی کھیلوں کو بھی کوروناوبا کی وجہ سے بندش کا سامنا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بھی غیرنصابی سرگرمیاں مفید ہے لیکن لاک ڈاؤن لگانے کے ساتھ سکول اور کھیلوں کے میدان بند ہونے سےاچانک بچے گھروں میں محصور ہوگئے اورانہوں نےانٹرنٹ کے ذریعے آن لائن گیم کھیلنا شروع کئے جو اب والدین کے لئے دردسر بن چکا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی جویریہ جو کہ دو بچوں کی ماں ہے انہوں نے کہا کہ کورونالاک ڈاؤن کے بعد سکول اور کھیلوں کے میدان دوبارہ آبادہوگئے ہیں لیکن انکے بچوں کوموبائل اورلیپ ٹاپ کے زریعےآن لائن گیم کے ساتھ ایسی عادت پڑی گئ ہے کہ جیسا کسی کو بیماری لگ گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ میرے دونوں بچے جب سکول بند ہوئے تو وہ موبائل اور انٹرنیٹ کے ایسے عادی ہوگئے کہ کھانے کے دوران بھی موبائل کے ساتھ کھیلنے لگے تھے اور اب جب دوبارہ سکول جانے لگے تو وہاں اب بچوں کا دل بھی نہیں لگتا اور سکول سے واپس آکرگھرمیں موبائل سے کھیلے بغیر کھانابھی نہیں کھاتے۔
ضلع بونیر کے ڈگرڈگری کالج کےکھیل اور جسمانی صحت کے دائریکٹر جہانزیب خان نے پشاور سے تعلق رکھنے والی دوبچوں کی ماں جویریہ کی اپنی بچوں کے حوالے سے آئن لائن گیمز کھیلنے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن گیمز نے بچوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا ہے انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ اگر کورونا کا دوسرا لہربڑھ جاتا ہے تو بچوں کے لئے گھروں میں ان جسمانی کھیل کا بندوبست کیا جائے جو گھروں کے اندر کھیل سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ذہنی طورپر تیار رہنا چاہئے کہ کورونالاک ڈاون کے دوران اپنے بچوں کو گھروں میں کون سی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہئے اور کھیلوں میں بیڈمنٹن جو کہ کمرے میں بھی کھیلا جاسکتا ہے اس طرح گھروں میں خصوصا ایسے گیمزجوروایتی کھیل منزرے،سنوکر،شطرنج اورچندرو جو کہ لڑکیاں بھی کھیلتی ہیں کھیلنا چاہئیے۔
کورونا کے پہلے لہر کے کم ہونے کے بعد پختوں روایات کچھ حد تک بحال ہوچکے ہیں، کیونکہ دیہاتی ماحول میں عوام ایس او پیز کا خیال اتنا نہیں رکھتے لیکن پھر بھی اس وباء نے اپنے ایسےاثرات چھوڑے ہیں جس سے لوگوں کی معاشرتی زندگی میں واضح تبدیلیاں آچکی ہے۔