ہمارا معاشرہ اور عدم برداشت، بس پوچھو مت!
سلمان یوسفزے
جی ہاں! ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہر شخص اپنے بس کے مطابق ظالم ہے جس کی واضح مثالیں ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں کئی بار دیکھنے کو ملتی ہیں، صبح آنکھ کھولتے ہی کوئی نیا واقعہ ہمیں خوش آمدید کہتا ہے اور شام تک یہ واقعات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ بس پوچھو مت!
یہ ایک تلخ حیقیت ہے کہ ان واقعات کے پیچھے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور انتہا پسندی کی شدت اختیار کرنی والی لہر ہے جو آہستہ آہستہ شدت پسندی کے دامن کو چھوتی ہے اور تشدد کی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہے۔
پختون معاشرے میں کسی پر تشدد کرنا، جائیداد کے تنازغے یا غیرت کے نام پر قتل کرنا ایک بری عادت بن چکی ہے جو بظاہر عدم تشدد یا برداشت سے لاعلمی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ شدت پسندی ہمیں وراثت میں ملی ہے یا یہ موجود حالات اور وقت نے ہمیں اس پر مجبور کیا ہے؟
اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو اس سے بھی زیادہ خوفناک اور چونکا دینے والے مناظر سامنے آ جائیں گے جس کے پیچھے ہماری اپنی ہمی کم علمی اور غیروں کی خوشامدی کا ہاتھ ہے۔
بچپن سے ہی ہمارے بچوں کو پشتون ایک جنگجو کے طور دکھایا جاتا ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ پشتون ایک بہادر اور بندوق سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ یہاں سے بچے کو بندوق سے محبت ہونے لگتی ہے اور جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اسی بندوق سے اپنی نام نہاد بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معمولی باتوں پر آدم زاد کی جان لے لیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عدم برادشت کے بڑھتے رحجان کے پیچھے وہی اصول کار فرما ہے کیونکہ ہم نے خدا کی تخلیق کو اپنے اپنے طریقوں سے تقسیم کیا ہے اور ہر فرد کو اس کی ذات، ہنر اور رنگ کے حساب سے اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کی حییثت کے حساب سے برتاؤ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی ہوٹل میں خدمات انجام دینے والے افراد ہوں یا کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا بچہ، کوئی سکیورٹی گارڈ ہو یا کسی سٹور کا سیلز مین، ان میں سے ہر شخص روزانہ کئی بار اپنے معاشرے کے دیگر نام نہاد مہذب افراد کی طرف سے برے رویے کو سہتا ہے جو یقیناً ان کے اندر بھی منفی جذبات کو جنم دیتا ہے۔
اس کے برعکس یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا یہی طریقہ ہے کہ دوسرے کی عزت پیروں تلے روند دی جائے۔
ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتی ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں اور ناآسودہ خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرتی اصولوں یا تربیت کے باعث ہم بہت سے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ وقت میں فخر افغان، بابائے امن اور عدم تشدد کے داعی خان عبدالفغار خان المعروف باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ باچا خان اور خدائی خدمتگاروں نے انگریز سامراج کے خلاف یہ تحریک شروع کی تھی جو اب تک جاری ہے۔ عدم تشدد کا فلسفہ انسان کو انسان دوستی، امن، بھائی چارے اور خدا کے مخلوق چاہے اس کا تعلق کسی اور مذہب سے ہی کیوں نہ ہو، اس سے محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔
حیقیت یہ ہے کہ معاشرے میں برداشت اور عدم تشدد کو فروغ دینے کیلئے ایک تبلیغ شروع کریں جو عوام کے مابین نفرت کو دور او محبت کو قائم کرنے کے امکانات پیدا کرے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے، اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیاجائے، ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور انسانیت کا درس دیاجائے۔