کورونا وباء یا کچھ اور، بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟
محمد طیب، نبی جان اورکزئی
خیبر پختونخوا میں پچھلے سال اگست کے مہینے میں مقامی حکومتیں ختم ہوئی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اب تک نئے بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام نظر آ رہی ہے، صوبے میں بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پر عوام بہت مشکلات سے دوچار ہیں۔
خیبر پختونخوا میں پچھلے برس 28 اگست کو بلدیاتی حکومتوں کی مدت پوری ہو گئی تھی اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 219 کے مطابق ‘کمیشن کو کسی صوبے، وفاقی دارالحکومت یا قبائلی اضلاع میں بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد 120 روز کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے حکام نے فروری میں صوبائی حکومت کو تاکید کی تھی کہ اگر نیا نظام لانا مقصود ہے تو اپریل 2019 تک قانونی چارہ جوئی کی جائے بصورت دیگر وہ نئے نظام کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔
لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار نوٹس کے باوجود خیبر پختونخوا میں نیا بلدیاتی قانون تاحال وضع نہیں کیا جا سکا ہے۔ اب تحریک انصاف حکومت نے صوبائی اسمبلی سے پنڈیمک ریلیف آرڈیننس کا ایک بل پاس کر کے بلدیاتی انتخابات کو دو سال کیلئے قانوناً ملتوی کر دیا ہے۔ آرڈیننس میں حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ کورونا وباء کے ہوتے ہوئے حکومت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کر سکتی، خدشہ ہے کہ کہیں اس سے صوبے میں کورونا وائرس پھیل جائے گا۔
مقامی صحافی محمد فہیم کے مطابق پہلے صوبائی حکومت قانون کی آڑ میں ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی لیکن اب ان کو پنڈیمک ریلیف آرڈیننس کی شکل میں قانونی تحفظ مل چکا ہے۔ ان کے مطابق بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے گراس روٹ لیول پر عوام بہت مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ بلدیاتی فنڈز جاری نہیں ہوتے۔
محمد فہیم نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی دو بڑی وجوہات کی نشاندہی کی، بقول ان کے پچھلے سال اور اس سال کے بلدیاتی بجٹ کو اگر دیکھا جائے تو یہ سو ارب سے زیادہ بنتے ہیں جو صوبائی حکومت نے صرف کاغذات میں بلدیاتی نظام کیلئے مختص کیے ہیں لیکن یہ فنڈز دینا نہیں چاہتی۔ اگر یہ خطیر رقم بلدیاتی نمائندگان کے ذریعے خرچ کی جائے تو عوام کو بڑا فائدہ ہو گا لیکن صوبے میں جب بلدیاتی نظام ہی نہیں تو یہ فنڈز خرچ کیسے کیے جائیں گے، حکومت چاہتی ہے کہ یہ انتخابات لیٹ ہو جائیں تاکہ فنڈز بچ جائیں۔
محمد فہیم کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس محکمہ بلدیات کو دینے کیلئے فنڈز بھی نہیں ہیں جبکہ حکومت نئے بلدیاتی نظام میں بڑے سخت قسم کے رولز بھی بنا چکی ہے تاکہ اگر 2020 میں صوبے میں بلدیاتی اننتخابات ہو بھی جائیں تو سات آٹھ ماہ تک محکمہ بلدیات اپنا بجٹ پروپوز نہ کر سکے تو ایسے حالات میں وہ صوبائی حکومت سے فنڈز کا تقاضا کیا کرے گا؟
پنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف حکومت کا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ صوبے میں تو ان کی حکومت ہے اور انہیں توقع ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بیشتر امیدوار انہی کے کامیاب ہوں گے، اک رواج جو صوبے میں پہلے سے ہی جاری ہے، ایسے حالات میں پی ٹی آئی حکومت چاہتی ہے کہ آنے والا بلدیاتی نظام 2023 کے بعد ختم ہو، اس کا مدعا یہ ہے کہ جب ملک میں عام انتخابات ہوں تو گراؤنڈ پر اس کے بلدیاتی نمائندے موجود ہوں جس کا 2023 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو خاصا فائدہ ہو گا کیونکہ انتخابی مہم کے دوران ان کے پاس فنڈز ہوں گے اور یوں وہ پارٹی کیلئے کافی کارآمد ثابت ہوں گے۔
بلدیاتی انتخابات کے ملتوی ہونے پر عوام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بلدیاتی نظام سے جڑے بہت سے ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں۔ سماجی کارکن اسلام گل کا کہنا ہے کہ حکومت کورونا وباء کا بہانا بنا کر بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کرنا چاہتی ہے کیونکہ حکومت صوبائی اسمبلی کے ممبران کے دباؤ کی وجہ سے نہیں چاہتی کہ اختیارات کو نچلی سطح تک لائے۔
اسلام گل کا مزید کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے عدم انعقاد پر شہری تذبذب کا شکار ہیں بلدیاتی نظام کے تحت جو ترقیاتی سکیمیں جیسا کہ پانی، سیوریج، گلی کوچے تمام کام اس نظام کے ختم ہونے کے ساتھ ہی رک گئے ہیں اب لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس حوالے سے درخواست دی جائے تو کس کو؟
دوسری جانب وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش ان الزام کو رد کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ صوبائی حکومت کا پلان تھا کہ اگست 2020 میں بلدیاتی انتخابات کرائیں کیونکہ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بہت سی ترامیم اور قانون سازیاں بھی کی ہیں لیکن مارچ سے شروع ہونے والی کرونا وباء نے حالات بدل دیے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ وائرس پھیلنے کے ڈر اور کرونا سے بننے والی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے صوبائی حکومت نے از راہ احتیاط پینڈیمک ریلیف آرڈیننس 2020 کے ذریعے دو سال تک بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے مشیر کامران بنگش کا نے مزید بتایا کہ کرونا کے دوران ایک صوبائی اور وفاقی نشستیں بھی خالی ہوئی ہیں جس پر بھی تاحال ضمنی انتخابات کا کوئی شیڈول جاری نہیں ہوا ہے، اگر ان دو سال کے دوران حالات قدرے بہتر ہوئے تو حکومت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرے گی۔
بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کیلئے حکومت نے جو پینڈیمک ریلیف آرڈیننس جاری کیا ہے اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے بہت تنقید سامنے آئی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہئے تھا کہ آرڈننس کے بجائے بلدیاتی نظام کیلئے اسمبلی میں قانون سازی کرتی نا کہ ایک آرڈیننس کے پیچھے چھپ جاتی۔
بلدیات کے علاوہ صوبے میں کرونا وباء کی وجہ سے تین ماہ تک اسمبلی بند ہونے کی وجہ سے اور بھی بہت اہمیت کی حامل قانونی سازیاں تعطل کا شکار ہوئی ہیں ۔
قانون سازی کا عمل روک جانے کے باعث عوامی نیشنل پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک کا کہنا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران صوبائی اسمبلی کی کارروائی متاثر ہونے کی وجہ سے اہم قانون سازی، بلز، تحاریک التوا اور سوالات التواء کے شکار ہوئے ہیں۔
شگفتہ ملک کے بقول 2019 میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون سازی شروع کی جو کہ ضرورت تھی اور اس ضمن میں اسمبلی میں بل پیش کیا گیا جس کیلئے سلیکٹ کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی لیکن بدقسمتی سے کورونا لاک ڈاون کی وجہ اسمبلی کاروائی متاثر ہوئی جس کے باعث مذکورہ قانون سازی متاثر ہوئی۔ ”دوسری جانب بچوں پر ہر قسم تشدد کے خلاف بل بھی کورونا کے باعث متاثر ہوا اور اس بل میں اب بہت سا را کام زیر التوا ء ہے۔”
کورونا وباء میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے قانونی کارروائی رک جانے کی وجہ سے عام شہری بھی بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں، لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے بھی ان کے کیسز بار بار التواء کا شکار رہے ہیں لیکن پہلے کورونا وباء اور اب وکلا کی ہڑتالوں نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔