درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانوں پردشمنیاں کیوں؟
سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب خان
سب ڈویڑن کوہاٹ کا علاقہ درہ آدم خیل کوئلے کے ذخائر سے مالامال ہے۔ کوئلے نے ایک طرف سینکڑوں افراد کو برسرروزگار کیا ہے تو دوسری جانب اس کوئلے کی وجہ سے مقامی اقوام میں دشمنیاں چل رہی ہیں۔
کوئلے کے کاروبار سے منسلک فہیم آفریدی کا کہنا ہے کہ درہ آدم خیل میں کوئلہ پر تنازعات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں، ہر خاندان کی آپس میں دشمنی چل رہی ہے ۔انکا کہنا تھا کہ 2003 میں قوم آخوروال کا کوئلہ نکلا تو ایک تنازعہ شروع ہو گیا ۔ قوم نے اپنی روایت کے مطابق اس مسلئے کو حل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن دونوں فریقین کے درمیان کوئی ایک بھی فریق صلح کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یوسف ٓفریدی نامی ٹھیکیدار نے پورے کوئلے پر قبضہ کیا ہوا ہے حکومت بھی اس معاملے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی نہ ہی ان کے درمیاں صلح کرواتی ہے ۔ٹھیکیدار کے ساتھ پیسہ ہے وہ کوہاٹ انتظامیہ کو دے کر معاملات کو ختم کر دیتا ہے اور فائدہ بھی اٹھارہا ہے۔ درہ آدم خیل میں کوئلے کی 200 کانیں قوم آخوروال کی ہیں۔
فہیم آفریدی نے بتایا کہ اس ٹھیکیدار کے ساتھ کسی قسم کے قانونی دستاویزات نہیں ہیں ۔اس ٹھیکیدار کے خلاف کئی بار احتجاج بھی کیا گیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
مقامی شخص عادل آفریدی کا کہنا ہے کہ 2003 میں درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانیں دریافت ہوئیں
اُس وقت درہ ادم خیل کے لوگ بے روزگاری کا شکار تھے کوئلہ کی دریافت کی وجہ سے لوگ خوش تھے کہ اب انھیں روزگار مل جائے گا ۔مقامی افراد نے کوئلہ کی کانوں میں ملازمت شروع کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درہ آدم خیل میں مقامی لوگوں کے ساتھ شانگلہ اور سوات کے مزدور بھی آنا شروع ہوگئے اورانہوں نے اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے اس خطرناک کام کو گلے لگا لیا۔
انہوں نے کہا کہ درہ آدم خیل پانچ قوموں پر مشتمل ہے قوم آخوروال، قوم ذرغن خیل، قوم شیراکی، قوم تورچھپر اور قوم بوستی خیل۔ درہ آدم خیل میں 500 سے زیادہ کوئلہ کی کانیں دریافت ہوئی ہیں ہر ایک کان میں 100 سے زیادہ مزدور کام کررہے ہیں اس طرح کوئلہ کے کانوں میں مزدور دو شفٹوں میں کوئلہ نکالتے ہیں زیادہ تر مزدور شانگلہ او سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیکیدار مزدور کو ٹھیکہ دیتا ہے اور اس طرح مزدور 2500 روپے کے حساب سے ایک ٹن کوئلہ نکالتے ہیں۔ کوئلہ 1600،1800 فٹ گہرائی سے نکالا جاتا ہے۔ کان میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کیلئے اکسیجن مشین لگائی جاتی ہے۔
عادل آفریدی کا مزید کہنا ہے کہ کوئلے کی ایک کان سے روزانہ کی بنیاد پر 100 ٹن تک کوئلہ نکالا جاتا ہے اس طرح درہ آدم خیل کی کانوں سے ٹوٹل 2000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے، یہ کوئلہ اینٹ کے بھٹوں اور کارخانوں میں استعمال ہوتا ہے، درہ آدم خیل اور بلوچستان سے پورے پاکستان میں کوئلہ مختلف ضلعوں میں جاتا ہے۔
فہیم آفریدی کا کہنا ہے کہ درہ آدم خیل میں زیادہ تر لوگ اپنے رشتہ داروں یا گاو¿ں والوں کو کوئلے کے پیسے اس لیے نہیں دیتے کہ گاو¿ں والوں کے ساتھ پہاڑمیں شراکت میں ہوتی ہے ۔ٹی این این کے ساتھ گفتگوں کے دوران 60 سالہ عبدلااحمد نے کہا کہ وہ گزشتہ 4 سال سے درہ آدم خیل زرغون خیل کلی پہاڑ کوئلے کی کان میں کھدائی کا کام کرتا ہوں، وہ کوئلہ کی کان میں 1600 فٹ اندر کھدائی کا کام کرتے ہیں، مالک کو ٹن کے حساب سے پیسے دیئے جاتے ہیں ۔ ایک مزدورپورے دن میں 1300 روپے بناتا ہے اور کام بھی نہایت مشکل ہے۔
عبدالحمد نے کہا کہ زرغون خیل کلی کوئلے کی کان میں 20 تک مزدور کام کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ گھر کے 6 افراد ساتھ اس کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ کی کان میں کام کرنا اتنا اسان نہیں ہے کیونکہ علاقے میں اور کام نا ہونے کی وجہ سے وہ درہ آدم خیل میں اپنا رزق کمانے کیلئے آئے ہوئے ہیں لیکن یہاں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔انہوں نے کہا کہ زرغون خیل کلی سے 20 منٹ کے فاصلے پر پہاڑ پر چڑھ کر کوئلے کی کان کو جاتے ہیں لیکن کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہے، کچھ دن پہلے وہ کان میں کام کرنے میں مصروف تھے اسی دوران کان میں آکسیجن کمی کی وجہ سے 3 آدمی بے ہوش ہوگئے جن کو بہت مشکل سے اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے درہ آدم خیل میں مزدوری بہت زیادہ تھی کام زیادہ تھا لیکن اب خاندانوں کی آپس میں دشمنی پیدا ہونے کی وجہ سے درہ آدم خیل میں زیادہ کام نہیں ہوتا جن کی وجہ سے کوئلہ کی کانیں بند ہو رہی ہیں۔
یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں درہ آدم خیل کے مکینوں اور مقامی انتظامیہ کے درمیان اسلام آباد میں ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے ہیں جس کے رو سے درہ آدم خیل کے مقامی مکینوں کو کوئلے کی کانوں پر مستقبل میں ملکیت حاصل ہوگی اور غیرقانونی ٹھیکہ داروں کا قبضہ ختم کردیا جائے گا۔