چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا وائرس سے جاں بحق
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا وائرس سے جاں بحق ہو گئے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور اسلام آباد کے کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔، ان کی نماز جنازہ کل ڈھائی بجے آرمی سٹیڈیم پشاور میں ادا کی جائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کو خاصی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بقول ان کے ساتھیوں اور کورٹ سے وابستہ صحافیوں کے وہ ایک ایسے اصول پرست جج تھے جنہیں خریدا جا سکتا تھا نا ہی وہ کسی قسم کا دباؤ قبول کرتے تھے۔
یہ بھی خیال رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے آنجہانی چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ کو مشہور زمانہ سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا پر مبنی فیصلے سے عالمی سطح پر شہرت ملی۔
17 دسمبر 2019 کو سنائے جانے والے اس فیصلے پر جہاں حکومت نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا وہاں اس فیصلے کی بنیاد پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر اور تب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ان کی ساکھ اور ذہنی کیفیت پر سوالات بھی اٹھائے تھے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کون تھے؟
جسٹس وقار احمد سیٹھ 16 مارچ 1961 کو خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، 1977 میں کینٹ پبلک سکول پشاور سے میٹرک جبکہ ہائیر سیکنڈری تعلیم ایف جی انٹر کالج فار بوائز سے حاصل جس کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے 1981 میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایک سال سے کم عرصہ گومل یونیورسٹی کے شعبہ وکالت میں گزارنے کے بعد وہ پشاور یونیورسٹی کے لا کالج چلے گئے اور وہاں سے 1985 میں لا کی ڈگری حاصل کی اور 1985 میں ہی ذیلی عدالتوں کے وکیل بنے، 1990 میں پشاور ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں بطور ایڈووکیٹ وکالت کا آغاز کیا۔
جسٹس وقار سیٹھ 2011 میں بینچ کے ایڈیشنل جج بنے جبکہ پشاور ہائی کورٹ میں بینکنگ جج کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے کمپنی جج بن گئے اور جوڈیشری سروس ٹریبیونل کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 28 جون 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ مشرف کیس میں سپیشل کورٹ کے جج تھے۔
اہم فیصلے
جسٹس وقار سیٹھ کے اہم ترین فیصلوں میں نمایاں فیصلہ 2018 کا فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 74 مبینہ دہشت گردوں کی سزائیں معطل کرنے کا فیصلہ ہے۔ ایک اور مقدمے میں انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کو زیادہ اختیارات دینے کے خلاف بھی فیصلہ دیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے پشاور میں بننے والی بس ریپیڈ ٹرانسٹ (پشاور میٹرو) کے خلاف ایک پیٹیشن میں فیصلہ دیا تھا کہ اس منصوبے کی قومی احتساب بیورو سے تحقیقات کرائی جائیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں بی آرٹی ہی کے حوالے سے ایک اور فیصلے میں انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
امسال فروری میں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے شانگلہ کا دورہ کیا اور بشام میں سب جیل کا افتتاح کیا تھا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ انہوں نے شانگلہ سے وکالت کا آغاز کیا اور شانگلہ کے بہت سارے کوئلہ مزدوروں کے کیسز لڑے جن میں سے اکثر کیسز معاوضے سے متعلق تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مولویوں نے اس کے خلاف فتوے بھی دیئے کہ یہ معاوضہ حرام ہے لیکن انہوں نے وہ کیسز لڑے تھے۔