افغان مہاجرین کے کیمپوں میں چھائی مایوسی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
عبدالستار
‘ دوکاندار اور فروٹ، سبزی بیچنے والے اپنی ریڑھیوں کے ساتھ کھڑے اس انتظار میں ہے کہ شاید کوئی گاہک آئے اور ان سے خریداری کریں لیکن خریداروں کی تعداد بہت کم ہے، بازار کے دوسرے کونے میں کچھ بچے دنیا کے غم سے بے خبرایک دوسرے سے باتوں میں مصروف ہے اور کھیلتے ہوئے جارہے ہیں، ان بچوں کو فروٹ اور سبزی بیچنے والوں کی طرح گاہکوں کی فکر تو نہیں ہے البتہ ایک ہمارے ہاتھوں میں کیمرے اور مائیک دیکھ کر کچھ گھبرا سے گئے ہیں اور دوسرے کے کانوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے جلدی نکلو پولیس آئی ہوئی ہیں’
یہ منظرمردان میں صوابی روڈ پر واقع افغان مہاجرین کے کاگان کیمپ کے مین بازار کا ہے۔ کاگان کیمپ کے مین بازارمیں کروناوبا آنے کے بعد کاروبارماند پڑگیا ہے، بازار دو درجن سے زائد دکانوں اور اس سے دگنے سبزی ریڑیوں اور ٹھیلوں پر مشتمل ہے۔
کاگان افغان مہاجرکیمپ 1984میں آباد ہواہےاورسرکاری اعدادوشمارکے مطابق اس کیمپ میں 4 ہزارتک افغان مہاجرین زندگی بسرکررہے ہیں۔
افغان کیمپ بازارکےدوکانداروں نے بتایا کہ ان پراس قسم کےخراب حالات پہلےکبھی نہیں آئے تھے اوراب کرونا وبا کے بعد بازارمیں اکثر اوقات کاروبارکم ہوتا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ لوگ ان حالات سے بہت مایوس ہوگئے ہیں اور پرانی زندگی کی طرف یا تو آنا نہیں چاہ رہے یا ان کی استطاعت نہیں ہے۔
کیمپ میں مٹی سے بنے دو کمروں پر مشتمل گھر میں 60 سالہ ناندانہ بیگم کے گود میں دو سے ڈھائی سال کے عمر کا ایک بچہ بیٹھا ہوا ہے جو کہ غالبا ان کا پوتا ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ناندانہ بیگم نے کہا کہ پچھلے36سال سے اسی کیمپ میں مہاجرت کی زندگی گزاررہی ہے۔ ناندانہ بیگم کچھ عرصے پہلے تک کیمپ میں گھر گھر جاکرعورتوں کے زیب و زیبائش اور دوسرا گھریلوں سامان فروخت کر رہی تھی لیکن کرونا وبا کے دوران لگائے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے ان کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔
انکا گھرانہ 14 لوگوں پر مشتمل ہیں جن کا زیادہ تر انحصار ناندانہ بیگم کی محنت مزدوری پر تھا کیونکہ ان کے بقول ان کے 2 بیٹے مزدور ہیں جن کو کبھی دیہاڑی مل جاتی اور کبھی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران ان کا گھرانہ قرض میں ڈوب گیا ہے اور اب ان کے پاس سامان خریدنے کے لئے تو دور کی بات قرض کی قسط بھرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ اس دوران کسی نے بھی انکی مدد نہیں کی نہ پاکستان کی حکومت، نہ افغانستان کی حکومت نے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران قرض لے کر اپنے گھرکےخرچے کے لئے بندوبست کیا لیکن اب دوبارہ منیاری کے روزگار کے لئے ان کے ساتھ امداد کی جائے تاکہ یہ اپنا کاروبارواپس شروع کرسکے۔
یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں گیارہ لاکھ تک افغان مہاجرین آباد ہیں۔ پورے ملک میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزین کی تعداد 14 لاکھ تک ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین کی تعداد بھی 14 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد اب تک 50 ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کے ساتھ 12 ہزار فی خاندان مالی تعاؤن کیا جا چکا ہے جبکہ بیس ہزار مزید خاندانوں کو بھی یہ امداد پاکستان پوسٹ کے تواسط سے پہنچائی جائے گی۔
دوسری جانب ناندانہ بیگم کے جیسے کئی خاندان اب بھی پرشکوہ ہیں کہ انہیں یہ امداد نہیں ملا ہے۔
کرونا وبا اورلاک ڈاؤن کی وجہ سےمعاشی تنگدستی صرف افغان مہاجرکیمپ تک محدود نہیں تھی بلکہ اس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو لوگ روزانہ کی بنیاد پرمزدوری کرتے تھے کرونا لاک ڈاون کے دوران ان کی معاشی تنگدستی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
کاگان کیمپ میں موجود افغان مہاجرین نےبتایا کہ کرونا وبا کی وجہ سے ان کو معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل کا بھی سامنا تھا لیکن اس سلسلے میں نہ حکومت پاکستان نے اور نہ افغانستان کے حکومت نےکوئی خاص مددکی اور نہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی اقدامات کئے۔
کاگان کیمپ میں افغان مہاجرین کے رہنماء افسر خان نے بتایا کہ بعض کیمپوں میں کروناوائرس کے مثبت کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن علاج کے ساتھ تمام ترانتظامات کیپمپ کے اندر خود کئے گئے تھے، افسرخان نے کہا کہ کیمپ کے اندرانہوں نے اپنے لوگوں میں ماسک اور سینیٹائزرتقسیم کئے اورحفاظتی دستانے بھی فراہم کئے تھے اور کروناوائرس سے بچنے کے لئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھی تاہم ان کو شکوہ ہے کہ اس مشکل وقت میں کسی نے بھی انکی مدد نہیں کی۔
دوسری جانب افغان حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کے لئے پاکستان میں موجود نمائندے عبدالحمید جلیلی نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس وبا آنے کے بعد اقوام متحدہ کےافغان مہاجرین کے لئے پاکستان میں کام کرنے والے ادارے یو این ایچ سی آراورافغان کمشنریٹ نے خصوصی طورپرافغان مہاجرین کیمپوں میں اپنی جاری سرگرمیاں مزید تیز کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیمپوں سے باہررہنے والے افغان مہاجرین پاکستان کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس اور پیزپر عمل کررہے ہیں جبکہ کیمپوں کے اندرکروناوائرس سے بچاؤ کے حوالے سے یواین اچ سی آر،ہمارے فیلڈآفیسر،افغان کمشنریٹ،افغان مہاجرسول سوسائٹی اور علماء کی جانب سے آگاہی پروگرام اور ایس اوپیز پر عمل درآمد کرنےکی مہم چلائی گئی ہے اور افغان مہاجرین کو سمجھایا گیا ہے کہ کروناوائرس سےاپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو کس طرح بچانا ہے تاکہ وہ محفوظ رہ سکے۔
افغان مہاجرین کے نمائندہ عبدالحمید جلیلی نے مزید بتایا کہ خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے 61کیمپ اب بھی قائم ہیں اور اس طرح صوبے میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ ہے انہوں نے کہا کہ 32فیصد افغان مہاجرین کییمپوں میں مقیم ہے جبکہ باقی شہری علاقوں میں زندگی گزاررہے ہیں۔