خوشگوار موسمیاتی تبدیلی یا قیمتوں میں اضافہ، شانگلہ میں جاپانی پھل (املوک) کے باغات بڑھنے لگے
طارق عزیز
شانگلہ میں پچھلے چند سالوں میں سرخ املوک یا پرسیمن (جسے جاپانی پھل بھی کہا جاتا ہے) کی پیداوار میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کی وجہ سے اب اس کا طریقہ استمال بھی تبدیل ہو رہا ہے، چند برس پہلے تک اس پھل کو خشک کیا جاتا تھا جبکہ اب باغ سے اترنے کے بعد تازہ ہی مارکیٹ پہنچایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سینکڑوں سال سے یہ پھل چائنا میں پایا جاتا رہا اور پھر جاپان،کوریا مصر اور پاکستان سمیت مختلف دیگر ممالک میں منتقل ہوا-
ویسے تو اس املوک یا پرسیمن کی پیداوار دیرلوئر میں ہوتی ہے لیکن شانگلہ کے لوگوں اور زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہاں پر بھی اس پھل کے باغات کافی زیادہ ہوگئے ہیں۔ آج کل موسم خزاں کے آغاز میں زیادہ تر باغات سے میوہ اتار دیا گیا ہے لیکن چند ایک درختوں کی ٹہنیوں پر سرخ رنگ کے پھل کے ساتھ سنہری رنگت کے پتے ایک دلکش نظارہ پیش کر رہے ہیں۔
ضلع شانگلہ کے ہیڈکواٹر الپوری سے رانیال تک سڑک کے کنارے مختلف مقامات پر جاپانی پھل کے باغات کے حسین نظارے نہ صرف شانگلہ کے خوبصورتی میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ کافی لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی بن چکا ہے-
چند سال پہلے تک شانگلہ کے بعض علاقوں میں املوک کے درخت موجود تو تھے لیکن ان کے پھل بیچنے کا کوئی رواج نہ تھا کیونکہ لوگوں نے اسے باقاعدہ باغات کی شکل نہیں دی تھی، درختوں کے مالکان کے گھرانوں سے جو اضافی پھل بچ جاتا تھا انہیں کاٹ کر خشک کیا جاتا اور پھر اسی کو گھروں کو استمال کیا جاتا اور جس کے پاس زیادہ مقدار میں ہوتا وہ مارکیٹ میں بیچ دیتے۔ اس خشک املوک کو مقامی زبان میں "کختہ” کہاجاتا ہے-
عموما خشک ہونے کے بعد کپڑے کی بنے ایک تھیلے میں رکھا جاتا اور ڈرائی فروٹ میں اس کا استعمال ہوتا تھا- مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ اور قیمت بڑھنے کے بعد اب لوگوں نے اس کے باقاعدہ باغات لگانے اور اسے مارکیٹ میں سپلائی کرنا شروع کردیا-
اس حوالے سے ہم نے شانگلہ کے ایک نرسری کے مالک محمد عارف سے جاننے کی کوشش کی، انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ ان چند سالوں میں املوک کی مانگ میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ املوک کے قیمت اور اس کے آسان اور کم خرچ طریقہ کار کے حوالے سے جاننے کے بعد بہت سارے لوگوں نے اپنے کھیتوں میں املوک کے باغات لگانے شروع کردئیے ہیں-
ان کا کہنا تھا کہ دیگر پودوں کی طرح اس کیلئے ہموار زمین کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کھیتوں کے درمیانی ڈھلوان اور غیر ہموار زمین میں بھی یہ پودا درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا درخت ہے جو ایک بار لگ جائے تو پھر کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی سپرے،شاخ تراشی جیسے کاموں کی ضرورت پڑتی ہے- "ہم لوگ اسے اب بھی جنگلی درخت ہی کہتے ہیں جو کہ بغیر خاص محنت کے پھل پھول جاتا ہے” عارف نے بتایا۔
شانگلہ کے علاقے شاہپور سے تعلق رکھنے والے ایک اور باغ کے مالک ضیاءالحق نے اس سال اپنا باغ ساڑھے تین لاکھ روپے میں بیچ دیا- ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘یہ ایک جنگلی درخت ہے جس کیلئے کسی قسم کے سپرے،پانی دینے شاخ تراشی یا اس قسم کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی’۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال جاپانی پھل (املوک) کی پیداوار ذیادہ رہی- ژالہ باری کی وجہ سے نقصان پہنچنے کے باوجود بھی پچھلے سال سے بہتر سیزن رہا- ضیاءالحق کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کھیتوں میں مکھی کی کاشت کیا کرتے تھے لیکن اب اس پورے علاقے میں لوگوں نے املوک کے باغات لگانا شروع کردئیے ہیں-
ضیاءالحق نے مزید کہا کہ ہم یہاں دو طریقوں سے باغ لگاتے ہیں-پہلا طریقہ یہ ہے کہ نرسری سے جاپانی پھل کے پودے خرید کراگائے جاتے ہیں جبکہ دوسرا طریقے میں جنگلی املوک جس کے سیاہ چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں اسے بوکر جب اس کے ایک،دو سال میں پودے بن جائے تو اس میں کرافٹنگ کرکے جاپانی پھل کے پیوند لگائے جاتے ہیں-اس پر کوئی خرچہ بھی نہیں آتا-اور یہ فارم سے لائے گئے چاپانی پھل کے درخت سے ذیادہ کامیاب ہوتے ہیں-
املوک کا باغ سے مارکیٹ تک رسائی
چند برس پہلے تک شانگلہ سے املوک یا جاپانی پھل کا مارکیٹ میں رسائی کا کوئی رواج نہیں تھا اور اس کا استمال مقامی سطح تک محدود تھا لیکن اب اس پھل کی قیمت بڑھنے پر نہ خیبرپختوںخوا سمیت ملک بھر کے مختلف علاقوں تک اس کو سپلائی کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سالوں کے نسبت شانگلہ میں اس سال املوک کی پیداوار ذیادہ ہوئی اور کسانوں کو کافی فائدہ ہوا- املوک اس سال مختلف جگہوں میں مختلف قیمتوں پر فروخت کیا گیا لیکن شانگلہ میں اس سال تقریبا 100 سے 200 روپے فی کاٹن کے حساب سے بیچا گیا اور ہر کاٹن میں تقریبا50 سے 60 دانے پیک کئے جاتے ہے-جس کا اوسطا وزن 6-8 کلو ہوتا ہے-
بیوپاری باچا حسین نے پچھلے سال کی طرح اس بار بھی املوک کے باغ خریدے- انہوں نے امسال ضیاء الحق کا باغ اس وقت خرید لیا تھا جب اس میں پھل انتہائی کچے حالت میں تھا۔ باچا حسین کا کہنا تھا کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال پچاس فیصد ذیادہ پیداوار ہوئی ہے- ” پچھلے سال جس باغ میں 100 کاٹن املوک تھے اس سال اسی باغ میں 150 کاٹن کے املوک پیداہوئے ہیں”-
بیوپاری باچا حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ ہم اس کو یہاں پہاڑوں میں خرید کر اسے مزدوروں کے زریعے نیچے سڑک تک لے آتے ہیں، روڈ سائڈ پر جمع کرنے کے بعد چھوٹے بیوپاری جمع ہوکر ٹرکوں میں پنڈی،پشاور لاہور اور ملک کے دیگر بڑے منڈیوں میں پہنچاتے ہیں- وہاں منڈی میں موجود ایجنٹ اپنا کمیشن وصول کرکے اس کے باقی پیسے ہمیں ملتے ہیں-
کسانوں اور بیوپاریوں کو درپیش مسائل
باچا حسین نے بتایا۔کہ شانگلہ میں جاپانی پھل کے بہت کم باغات ایسے ہیں جس میں آڑو یا مالٹے کے باغات کی طرح ایک ہی جگہ درخت لگے ہو، بلکہ اس کے باغات میں ایک ہی کھیت میں مختلف مقامات پر چند درختیں لگی ہوئی ہوتی ہے-
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایڈوانس میں باغ خریدتے ہیں لیکن بعض اوقات اس پہ چمگادڑ حملہ کرتے ہیں اور سارا باغ خراب کردیتے ہیں- جس سے ہمیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے-
اس کے لئے کوئی سپرے یا دوائی لوکل مارکیٹ میں موجود نہیں جس کو استعمال کرکے باغ کو بچایا جاسکے- انہوں نے زرعی ماہرین اور محکمہ زراعت کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی-
املوک کی پیداوار میں اضافہ موسم میں خوشگوار تبدیلی کی مرہون منت
ویسے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دنیا بھر کے لئے حال اور مستقبل میں سب سے بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن اس موضوع کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شانگلہ میں یہ تبدیلی کافی مثبت ثابت ہوئی ہے اور املوک کی پیداوار میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی موسمیاتی تبدیلی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے شانگلہ کے طارق رؤف نے دعویٰ کیا ہے کہ شانگلہ میں گزشتہ دس سے پندرہ سالوں کے دوران جنگالات میں بہت اضافہ ہوا اور پورے شانگلہ کا جو 32 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا وہ مذکورہ سالوں میں 38 فیصد تگ بڑھ گیا جو کہ پورے پاکستان میں دوسرے نمبر پر ہے- انہوں نے کہا کہ جنگلات میں اضافے کی وجہ سے یہاں کے موسم میں بھی کافی تبدیلیاں آئی ہیں- جنگلات میں اضافے کی وجہ سے بارش اور برف باری میں اضافے کے ساتھ ساتھ بہت ساری دیگر خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوئی ہے جن میں سے املوک سمیت مختلف فصلوں اور پھلوں کے پیداوار میں اضافہ بھی شامل ہے-