‘سعودی عرب میں 7 مہینے کمرے میں گزارنے کے بعد کام شروع کیا’
خالدہ نیاز
‘میں نے اپنی جوانی کے پانچ سال سعودی عرب میں ضائع کر دیئے، میری غلطی یہ تھی کہ میرے پاس کوئی ہنر نہیں تھا اور سمجھ رہا تھا کہ شاید وہاں میں بہت زیادہ پیسے کما لوں گا جس سے میری زندگی خوشحال ہو جائے گی۔’
یہ کہانی کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا میں نئے ضم ہونے والے ضلعے باجوڑ کے عبد الوحید کی ہے، تحصیل خار سے تعلق رکھنے والا چار بچوں کا باپ عبد الوحید 2013 میں سعودی عرب گیا تھا اور پانچ سال وہاں گزارنے کے بعد بالآخر ناکام ہو کر 2017 میں اپنے وطن واپس آیا۔ بیرون ملک سفرکرنے والے باقی نوجوانوں کی طرح عبد الوحید نے بھی سنہرے مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے لیکن پردیس میں تکالیف دیکھنے کے بعد عبد الوحید کی سوچ اب یکسر بدل گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ جو نوجوان ہنر نہیں رکھتے تو وہ باہر کے ممالک پیسے کمانے نہ جائیں کیونکہ بغیر ہنر کے وہاں کوئی بھی پیسے نہیں کما سکتا۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971 سے لے کر ستمبر 2020 تک پورے ملک سے 426644 ایسے افراد نے باہر کے ممالک کا سفر کیا جو ہنرمند تھے جبکہ 4788655 ایسے افراد باہر کے ممالک مزدوری کرنے گئے جن کے پاس کوئی ہنر نہیں تھا۔
اپنی درد بھری کہانی سناتے ہوئے عبد الوحید کا کہنا تھا کہ کفیل چھٹی نہیں دیتے، اگر آپ کو مہینے کے تین ہزار ریال ملتے ہیں تو بھی آپ کے پاس 800 ریال بھی نہیں بچتے اور آپ کو سالانہ 12 ہزار سے زائد اقامہ کا ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔
‘مجھے یہ نقصان ہوا کہ میرے پانچ سال ضائع ہو گئے، مجھے ایک روپیہ نہیں ملا، اگر میں اتنی محنت پاکستان میں کرتا تو پانچ سال میں اپنی زندگی بدل دیتا، میں نے تقریباً 7 مہینے ایک کمرے میں گزارے تھے، میرے پاس کوئی نوکری نہیں تھی، 8 مہینے بعد مجھے لائسنس ملا، اور میں گاڑی چلانے نکلا’ عبد الوحید نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
ان کے مطابق وہ سعودی عرب اس لئے گیا تھا، لوگ کہتے تھے وہاں مزدوری اچھی ہوتی ہے لیکن جب اس نے وہاں حالات دیکھے تو وہ اپنے ملک کا ارمان کرنے لگا۔ وہاں یہ مشکلات تھیں کہ نہ کام تھا اور نہ ان کے لئے یہاں واپس آنا ممکن تھا کیونکہ قرض لے کر ویزے کے پیسے دیئے تھے۔
اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘یہاں مجھے بتایا گیا کہ ہم آپ کو کرایہ پر ٹیکسی دیں گے، لیکن وہاں زبردستی فروخت کرتے تھے، مثلاً 30 ہزار کی گاڑی ایک لاکھ میں فروخت کرتے تھے کہ ہمیں قسطوں میں ادائیگی کرو، اگر آپ کی غلطی کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو جاتا تو اپنی گاڑی خود ٹھیک کرنا پڑتی اور جس کی گاڑی خراب ہوتی وہ بھی ہم نے صحیح کروانا ہوتی تھی لیکن اگر غلطی دوسرے سائیڈ سے ہوتی تو پیسے کفیل کے نام پر نکلتے ہیں اور ہمارے کفیل وہ پیسے ہمیں نہیں دیتے تھے۔’
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبر پختونخوا سے سالانہ ہزاروں افراد بیرون ممالک ملازمت یا مزدوری کے لیے جاتے ہیں اور 1981 سے لے کر ستمبر 2020 تک خیبر پختونخوا سے 2735183 افراد بیرون ممالک جا چکے ہیں جبکہ قبائلی اضلاع سے اب تک 540630 افراد بیرون ممالک روزگار یا مزدوری کے لیے گئے ہیں۔ 2015 میں سب زیادہ 45798 افراد باہر کے ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے جبکہ رواں برس کورونا وائرس کی وجہ سے سفر پر پابندی اور بے روزگاری میں کمی کے باعث 7621 افراد نے بیرون ممالک کا سفر کیا۔
باجوڑ سے اب تک 51588 افراد جبکہ ضلع کرم سے 87339 نوجوان بیرون ممالک روزگار کے لئے جا چکے ہیں۔ 1971 سے لے کر اب تک 11294335 افراد نے مزدوی کی غرض سے باہر کے ممالک کا سفر کیا ہے جن میں سے 5573959 افراد سعودی عرب گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
اگر ایک طرف عبد الوحید کا باہر ملک میں مزدوری کا تجربہ اچھا نہیں رہا تو دوسری طرف کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جنہوں نے باہر ممالک میں محنت کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی قسمت بدل ڈالی ہے۔ انہیں میں سے ایک ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والا امین اللہ بھی ہے جو تعلیم حاصل کرنے بعد دبئی گیا۔
امین اللہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کا یہاں خیبر پختونخوا میں اپنا گاڑیوں کا کاروبار تھا تو ان کے پاس گاڑیوں سے متعلق معلومات تھیں اور کچھ وہاں جانے کے بعد کام سیکھا کیونکہ وہ جس شو روم والے کے پاس کام کرتا تھا وہ ان پڑھ تھا جبکہ یہ خود پڑھا لکھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں ان کو مشکلات پیش آئیں لیکن انہوں نے مارکیٹ سے بہت کچھ سیکھا، مشکلات یہ تھیں شروع میں 500 درہم مل رہے تھے، ڈیلنگ اور کاروبار کی اتھارٹی ان کے پاس نہیں تھی، میں نے دیگر شو رومز کے ساتھ کام شروع کیا، میں کسٹمر کے ساتھ ڈیل کرنے کے قابل تھا، لیکن میرے پاس اتھارٹی نہیں تھی، میں مزدوری کیا کرتا تھا ان کے ساتھ، میں نے افریقہ اور دیگر ممالک سے انےوالے کسٹمرز کے ساتھ ڈیلنگ شروع کر دی، باہر کے شو رومز کیلئے اس ڈیلنگ کی مجھے کمیشن ملتی تھی۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق سابقہ فاٹا کی آبادی 5001676 ہے جبکہ یہاں کل 12 ٹیکنیکل کالجز موجود ہیں جن میں سے 4 خواتین کے لیے اور باقی لڑکوں کے لیے ہیں۔
پشاور صدر میں پچھلے 15 سے ٹریولنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے ناصر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس زیادہ تر ویزے ڈرائیونگ اور لیبر کے آتے ہیں جو دو سال کے لیے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کمپنی سے معاہدے کے بعد بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں ان کو وہاں آسانی سے نوکری مل جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا اور وہ مزدوری کے لیے جاتے ہیں تو ان کو وہاں بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جس میں سرفہرست نوکری کا نہ ملنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کا کام صرف ویزے تک محدود ہوتا ہے، مسافروں کو وہاں سیٹل کرنا اور انکو نوکری دینا کمپنی کا کام ہوتا ہے۔
آمین اللہ نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے واپس پاکستان آنا پڑا، یہاں حالات دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں الگ کاروبار شروع کر سکوں لیکن میرے پاس ہنر تھا، میں جب واپس چلا گیا، وہاں کے شو رومز میں، میں نے پہلے سے اپنی ایک پہچان بنائی تھی وہ لوگ مجھے جانتے تھے، ایک شو روم والے نے مجھے بطور پارٹنر کام کرنے کی آفر کی، اور میں نے قبول کی یہ میرے ہنر کی وجہ سے ہوا تھا، یہ 2005 کی بات ہے، اس وقت کے حساب سے میں نے 80 لاکھ کی انویسمنٹ کی اس کے بعد میری کامیابی کا آغاز ہوا۔
‘آج میرے ساتھ درجنوں غیرملکی کام کر رہے ہیں، باقی لوگ آتے ہیں، انویسٹمنٹ کرتے ہیں، ہالف بیلین تک میرا کاروبار پہنچ چکا ہے بہت منافع ہو رہا ہے، فیملی کو میں سپورٹ کر رہا ہوں، فیملی ساتھ دوبئ میں سیٹل ہے’ امین اللہ نے بتایا۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نواب علی جو پاڑہ چنار پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں پڑھاتے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس انسٹی ٹیوٹ میں اس وقت 300 کے قریب طلباء سول اور الیکٹریکل ٹیکنالوجی پڑھ رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان طلباء کو بجلی، تعمیرات اور نقشوں وغیرہ کے بارے میں سکھایا جاتا ہے اور ان کے اس ادارے سے کئی ایسے طلباء نکلے ہیں جو آج کل نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ باہر کے ممالک میں بھی اچھےاچھے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
پروفیسر نواب علی کے مطابق آج کل کا دور ہنر کا ہے جن لوگوں کے پاس کوئی بھی ہنر ہوتا ہے وہ بہت آگے جاتے ہیں اور خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔
امین اللہ کا کہنا ہے جو لوگ باہرجاتے ہیں، وہ کوئی ہنر سیکھنے کے بعد جائیں، وہاں دو سال تک دوسروں کے ساتھ کام کریں، ان سے بھی سیکھیں، ساری عمر مزدوری نہ کریں، چھوٹے کاروبار سے شروع کریں لیکن اپنا کام کریں اس سے ان کو بہت فائدہ ملے گا۔